نے ان کے اس قول پر اعتراض کیا ہے کہ ابو ہریرہ فقیہ نہ تھے اور یونس بن بکیر نے امام اعمش سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابراہیم سے زیادہ بغیر سنے ہوئے روایت کرنے والا کسی کو نہ دیکھا۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں: بات یہ ٹھہری کہ ابراہیم حجت تو ہیں مگر جب ابن مسعود وغیرہ سے روایت کریں تو وہ ٹھیک نہیں‘‘۔
اور سالم کا حال ’’تقریب التہذیب‘‘[1]میں یوں مذکور ہے: ’’سالم بن عبداللّٰه بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي أبو عمر أو عبداللّٰه المدني أحد الفقهاء السبعة وكان ثبتا عابدا فاضلا كان يشبه بأبيه في الهدي والسمت من كبار الثالثة‘‘ سالم عبداللہ کے بیٹے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پوتے فقہائے سبعہ و فقہائے نامور ان مدینہ میں سے ایک ہیں۔ ثقہ عابد فاضل تھے، طریقہ اور سیرت میں اپنے باپ کے مشابہ تھے، تیسرے طبقہ والوں میں بڑے درجہ کے ہیں‘‘۔
اور ’’خلاصة تذهيب التهذيب‘‘ میں ہے: ’’سالم بن عبداللّٰه بن عمر العدوي المدني الفقيه أحد السبعة عن أبيه و ابي هريرة و رافع بن خديج و عائشة رضي اللّٰه عنها قال ابن اسحق أصح الأسانيد كلها الزهري عن سالم عن أبيه وقال مالك كان يلبس الثوب بدرهمين وعن نافع كان ابن عمر يقبل سالما ويقول شيخ يقبل شيخا‘‘ – سالم عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عدوی مدینہ کے فقیہ فقہائے سبعہ میں سے ایک ہیں۔ اپنے والد اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور رافع بن خدیج اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔ ابن اسحاق نے کہا کہ ساری سندوں سے بڑھ کر صحیح زہری کی سند۔ سالم سے اور ان کی اپنے باپ سے ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سالم دو درہم کا کپڑا پہنتے تھے اور نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سالم کا بوسہ لیتے اور کہتے ہیں کہ بوڑھا بوڑھے (یعنی باعتبار فضل کے) کا بوسہ لیتا ہے۔
بھلا جو شخص آغوش عاطفت میں چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے تربیت یافتہ ہو اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا سرفراز بیٹا ہو، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پوتا ہو، جس کے گھر سے شریعت محمدی کی ترویج ہوئی ہو، جس کا علم و فضل اس وقت کے علمائے مدینہ میں مسلم ہو، جس کا فضل اقران تابعین میں مانا ہوا ہو اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کوفہ کا رہنے والا جس سے حدیث کی روایت مرفوعاً کم، حجاز عرب کا رہنے والا نہیں، عربیت اس کی اچھی نہیں، مطالب حدیث کو زیادہ سمجھتا نہیں خاص کر ایسے امر (نماز میں رفع الیدین) کی نسبت جس میں تفقہ کو کچھ دخل نہیں، یہ کیسی ناحق پسندی اور واشگاف غلط بیانی ہے۔ ایسی باتوں کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف کرنی مدح نہیں بلکہ سراسر قدح اور وہی نادان کی دوستی کا نتیجہ ہے۔ علاوہ دو شخصوں کے فضل و کمال کا موازنہ تو وہ شخص کر سکتا ہے جس نے دونوں کی صحبت اٹھائی ہو اور دونوں کے علم و طباعی کے جانچ کا اس کو موقع ملا ہو جیسے امام محمد کہ ایک زمانہ تک امام
|