Maktaba Wahhabi

109 - 363
ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی صحبت میں رہے اور ان سے پڑھا، پھر بعد ان کے امام مالک کی شاگردی کی اور ان سے مستفید ہوئے۔ انہوں نے دونوں کے علم و فضل کا موازنہ کیا اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مناظرہ میں صاف کہہ دیا کہ امام مالک رحمہ اللہ قرآن و حدیث اور آثار صحابہ وغیرہ کا علم امام ابو حنیفہ سے زیادہ رکھتے تھے جیسا کہ صاحب ’’سیرۃ النعمان‘‘ کی محولہ کتاب سے ہم اوپر ثابت کر چکے خلاف اس کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہ انہوں نے زہری اور سالم یا ابراہیم نخعی اور علقمہ کی صحبت نہیں اٹھائی، اور نہ ان لوگوں کے فضل و کمال کے جانچ کا ان کو موقع ملا، اور نہ کوئی ایسی صورت ہوئی جس سے وہ ان لوگوں کے قدر علم و تفقہ کا پتہ لگا سکتے۔ ایسی حالت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موازنہ کرنا لغو اور محض اپنے وہم خیال کی پیروی نہیں تو اور کیا ہے؟ میرا حسن ظن اس سے آبی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایسا کہا ہو علاوہ ان سب باتوں کے سارے اہل اصول نے سبب ترجیح احدی الروایتین یہ لکھا ہے کہ ایک طرف راوی فقیہ ہو اور ایک طرف غیر فقیہ نہ یہ کہ دونوں طرف راوی فقیہ ہوں مگر ایک طرف کا راوی افقہ ہو چنانچہ صاحب ’’سیر النعمان‘‘ نے خود بھی یہی لکھا ہے۔ علاوہ یہ بھی اصول کا مسئلہ ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہے کیونکہ نفی سہو اور عدم العلم پر محمول ہو سکتی ہے اور اثبات کا کوئی محمل صحیح نہیں ہے۔ پس زہری کی روایت میں فقہ راوی و علو سند و اثبات میں وجہ ترجیح موجود ہے اور حماد کی روایت میں کوئی سبب ترجیح نہیں ہے، راوی کا افقہ ہونا یہ اگر مان لیا جاوے تو سبب ترجیح نہیں ہے، اور اگر ہو تو یہ ایک وجہ تین سبب کا مقابلہ نہیں کر سکتی، ان اصول درایت کے موافق یہ حکایت محض لغو ٹھہرتی ہے، کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے زہری و سالم کی فقاہت کا انکار نہیں کیا، اور کیونکر کرتے، ان لوگوں کی جلالت شان پر تو اتفاق تھا، پس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مناظرہ کا قصہ قطع نظر روایت کے اصول درایت کی رو سے بھی محض غلط اور مہمل ٹھہرا۔ اس تحقیق و بیان سے روایت بالمعنی اور فقہ راوی کی قید کے متعلق باتیں خوب واضح ہو گئیں اور اس بنا پر مناظرہ امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کا قصہ جو صاحب ’’سیرۃ النعمان‘‘ نے لکھا تھا باطل و غلط ثابت ہو گیا۔ میں نے اس حکایت کی سند سے اسی وجہ سے بحث نہیں کی کہ جب مضمون ہی اس حکایت کے لغو اور مہمل ہونے پر دلالت کرتا ہے تو سند سے بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور یہ بھی بات تھی کہ سند کے متعلق بحثیں بہت ہو چکی ہیں‘‘۔[1] پس معلوم ہوا کہ فقاہت راوی کی بنیاد پر بعض صحابہ کی روایات کو راجح اور بعض کی روایات کو مرجوح قرار دینا ایک لغو اور مہمل اصول ہے۔ امام سخاوی رحمہ اللہ اس اصول کی تردید فرماتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’ولا عبرة برد بعض الحنفية روايات سيدنا أبي هريرة رضي اللّٰه عنه
Flag Counter