Maktaba Wahhabi

107 - 363
از آسمان و جواب از ریسمان ہے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک فقاہت سبب ترجیح تو جب ہے کہ عدالت و ضبط میں مساوات ہو اور جب عدالت و ضبط ہی میں نقصان ہو تو فقاہت سبب ترجیح کیوں کر ہو سکتی ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ تو نقصان راوی کہتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بجائے دفع نقصان کے سبب ترجیح بیان کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں میں کہتا ہوں کہ فقاہت سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کیا مراد ہے؟ اگر مسائل فرعی کا زیادہ جاننا مراد ہے تو قطع نظر اس کے کہ یہ بات محض بے دلیل اور اثبات دعویٰ بہ دعویٰ ہے۔ بادی الرائے میں بھی محض مہمل ہے کیونکہ یہ اس قسم کی بات ہے کہ دو شخصوں نے کوئی خبر کہی تو ایک خبر کو بایں نوع ترجیح دی جاوے کہ اس کے راوی کو دس مسئلے معلوم ہیں اور دوسری خبر کے راوی کو آٹھ مسئلے معلوم ہیں کوئی عاقل ایسا کہہ سکتا ہے بھلا؟ مسئلہ دانی کی کمی بیشی کو کسی خبر کی صحت و عدم صحت میں کیا دخل ہے؟ چنانچہ اصول فقہ حنفیہ میں بھی فقہ راوی سبب ترجیح بایں معنی نہیں لکھا ہے اور اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی یہ مراد ہے کہ حماد زہری سے زیادہ سمجھدار تھے یعنی مطالب حدیث کے زہری سے زیادہ سمجھتے تھے جیسا کہ اصول حنفیہ میں ہے کہ فقہ راوی سبب ترجیح اس وجہ سے ہے کہ سمجھی ہوئی بات زیادہ یاد رہتی ہے تو حماد کو بمقابلہ زہری رحمہ اللہ افقہ کہنا محض غلط ہی نہیں بلکہ روایت و درایت دونوں کے خلاف ہے۔ زہری رحمہ اللہ مدینہ طیبہ کے عالم، اہل زبان، قرشی، اولاد صحابہ و اہل بیت، علمائے حجاز اہل لسان کے شاگرد خود فقیہ و محدث دونوں، اور حماد کوفہ کے رہنے والے، ابراہیم نخعی کوفی کے شاگرد نہ خود حجازی حجازی کے شاگرد بھلا کوئی عاقل کہہ سکتا ہے کہ حماد حدیث کے مطالب زہری رحمہ اللہ سے زیادہ سمجھتے تھے۔ ایسی لغو و مہمل باتوں کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف کرنی مدح نہیں بلکہ ہجو ملیح اور نادان کی دوستی ہے۔ اب ابراہیم نخعی و سالم کا مقابلہ سنیے۔ حافظ ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘[1]میں ابراہیم نخعی کا حال لکھا ہے: ’’ابراهيم بن يزيد النخعي أحد الاعلام يرسل عن جماعة وقد رأي زيد بن أرقم وغيره ولم يصح له سماع من صحابي وقد قال فيه الشعبي ذاك الذي يروي عن مسروق ولم يسمع منه شيئا قلت وكان لا يحكم العربية ربما لحن ونقموا عليه قوله لم يكن ابو هريرة فقيها وقال يونس بن بكير عن الأعمش قال ما رأيت أحدا روي بحديث لم يسمعه من ابراهيم قلت استقر الأمر علي أب ابراهيم حجة و أنه إذا أرسل عن ابن مسعود وغيره فليس ذلك بحسن‘‘ ابراہیم نخعی ایک بڑے شخص ہیں، ایک جماعت سے مرسل طور پر روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے زید بن ارقم وغیرہ کو دیکھا تھا اور کسی صحابی سے سماع ان کا ثابت نہیں اور ان کے بارے میں امام شعبی نے کہا ہے کہ یہ مسروق سے روایت کرتا ہے، حالانکہ مسروق سے اس نے کچھ سنا نہیں ہے۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی عربیت اچھی نہ تھی بیشتر عبارت میں غلطی کرتے تھے اور لوگوں
Flag Counter