روایت امام ابو حنیفہ پیش کرتے کیونکہ عراق والوں کے رفع یدین نہ کرنے کی وجہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا ہونا ہے جیسا کہ کتب حنفیہ اور اسی مناظرہ کے پورے مضامین سے ثابت ہے نہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہ ہونا عراق والوں کے رفع یدین نہ کرنے کی وجہ تھی پس اگر قصہ صحیح مانا جاوے تو لازم آئے گا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے ایک بات غلط کہی جس کا بطلان پھر خود ہی کر دیا۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت پیش کی۔ دوسرا فقرہ اس مناظرہ کا یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جب یہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کے بارے میں کچھ ثابت نہیں تب امام اوزاعی نے کہا: ’’كيف لم يصح وقد حدثني الزهري عن سالم عن ابيه عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم كان يرفع يديه۔۔ الحديث‘‘ یعنی کیونکر تم کہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کے بارے میں کچھ ثابت نہیں حالانکہ زہری نے سالم سے روایت کی اور انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کرتے تھے۔ امام اوزاعی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دعویٰ کو یوں توڑا کہ یہ حدیث صحیح مع سند پڑھ دی کہ تم کہتے ہو کہ اس بارے میں کچھ ثابت نہیں حالانکہ یہ حدیث صحیح موجود ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس کے جواب میں اپنے دعویٰ (کچھ ثابت نہیں ہے) کو یوں ثابت کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت پڑھی، حالانکہ اس سے اثبات دعویٰ تو درکنار، ابطال دعویٰ ہوتا ہے کیونکہ دعویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہ تھا کہ کچھ ثابت نہیں حالانکہ رفع یدین کی حدیث کے ثبوت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کچھ کلام نہیں کیا بلکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس کا معارضہ کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر چند رفع یدین کی حدیث ثابت ہے مگر اس کے معارض موجود ہے اور اس معارض کو بسبب فقہ راوی کے ترجیح ہے اور یہ دعویٰ (کچھ ثابت نہیں) کی دلیل نہیں بلکہ اس کی مبطل ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شان سے نہایت بعید ہے کہ دعویٰ کچھ ہو دلیل کچھ اور۔ تیسرا فقرہ اس مناظرہ کا یہ نقل کیا گیا ہے کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اس جواب پر یہ کہا: ’’أحدثك عن الزهري عن سالم عن أبيه و تقول حدثني حماد بن ابراهيم‘‘ صاحب ’’سیرۃ النعمان‘‘ نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کے اس قول کا صفحہ 87 میں یہ ترجمہ کیا ہے (امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا سبحان اللہ میں تو زہری سالم عبداللہ کے ذریعہ سے حدیث بیان کرتا ہوں آپ اس کے مقابلہ میں حماد نخعی علقمہ کا نام لیتے ہیں)۔ میں کہتا ہوں کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کے اس قول کا صریح مطلب یہی ہے کہ زہری اور سالم کے مقابلہ میں حماد اور ابراہیم نام لینے کے قابل نہیں ہیں چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کہنے پر استبعاد اور تعجب سے کہا کہ زہری اور سالم کے مقابلہ میں ان لوگوں کا نام کیوں کر لیا۔ لفظ سبحان اللہ کلمہ تعجب کہنے کا اور کیا مفاد ہو سکتا ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ کے کلام کا صریح مطلب یہی ہے کہ حماد و ابراہیم کی روایت قابل استدلال نہیں ہے، خصوصاً زہری اور سالم کے مقابلہ میں۔ اور یہ بات کتب اسماء الرجال میں طبقات رواۃ کے دیکھنے سے بھی معلوم ہو سکتی ہے۔ حماد کی نسبت ’’تقریب |