Maktaba Wahhabi

103 - 363
رازی کا قول ہے کہ شاذکونی کچھ بھی نہیں، متروک الحدیث ہے، ابن معین کا قول ہے کہ جھوٹ بولتا تھا اور حدیث گھڑتا تھا۔ اسی طرح ’’میزان‘‘ میں بھی۔ حارثی صاحب مسند ابی حنفیہ جو ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی ہے، حدیث گھڑنے کے لئے متہم ہے۔ ایسا ہی ’’میزان‘‘ اور ’’لسان‘‘ میں ہے، پس یہ حکایت شاذکونی یا حارثی کے اختلاق کا نتیجہ ہے۔ اس حکایت پر علامہ محمد معین السندھی حنفی رحمہ اللہ نے ’’دراسات‘‘[1]میں نہایت مفید کلام کیا ہے۔ (پھر علامہ سندھی رحمہ اللہ کا کلام ملخصاً نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ) عقل کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ فقہ راوی صحت روایت کے لئے بے اثر ہو۔ ثقات کی جانب سے اس کا نقل کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ قول سلف صالح پر موضوع و مختلق ہے، جسے کہ متاخرین نے ایجاد کر کے ان کی جانب منسوب کر دیا ہے۔ اس کی شہادت صاحب کشف و تحقیق فخر الاسلام شیخ عبدالعزیز محدث رحیم آبادی رحمہ اللہ نے بھی دی ہے۔ ان کے دلائل میں سے ایک دلیل بھی ہے کہ: ’’اگر ہم تفقہ راوی کو (غیر فقیہ کی روایت کے مقابلہ میں فقیہ کی روایت کو) لائق ترجیح اور با اثر مان لیں تو بھی یہ نہیں مان سکتے کہ ابن عمر کی حدیث کے رجال فقہاء نہ تھے۔‘‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اس حکایت کے علل قادحہ پر دلائل قائم ہیں، پس جو اس کو محل احتجاج میں وارد کرے اور مقدم کرے تو یہ اقدام غریب ہے الخ‘‘۔ [2] اور شیخ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی المکی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اور جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا امام اوزاعی رحمہ اللہ کے ساتھ مناظرہ و منسوب ہے کہ جس میں آں رحمہ اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پر من حیث الفقہ ترجیح دیتے ہیں تو یہ قصہ جھوٹا ہے۔ اسے موفق بن احمد المکی نے ’’مناقب الامام ابی حنیفہ‘‘[3]میں اپنی سند کے ساتھ بطریق ابی محمد الحارثی انبأ محمد بن ابراہیم الرازی انبأ سلیمان الشاذکونی: سمعت سفيان بن عيينة يقول: اجتمع أبو حنيفة والأوزاعي في دار الحناطين (فساقها) وارد کیا ہے۔ یہ سلسلہ روایت جھوٹا ہے۔ حارثی جس کا نام عبداللہ بن محمد بن یعقوب الاستاذ السبذمونی ہے اور اس کا شیخ بلکہ اس کے سب شیوخ کذاب ہیں جن کے تراجم میزان، لسان اور ضعفاء ابن الجوزی وغیرہ میں موجود ہیں۔ پس اس روایت پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔ پھر اس میں نکارت بھی موجود ہے کہ جسے ہم نے اپنے رسالہ ’’کحل العینین‘‘ میں بیان کیا ہے، اور یہ تیسری وجہ ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کے ثبوت کو تسلیم کر لیں تو بھی ترجیح اس کے برعکس کے لئے ہی ثابت ہے کیونکہ خود شیخ عبدالحی لکھنوی اپنے امام کی ترجیح سے راضی نہ تھے جیسا کہ انہوں نے ’’التعليق الممجد علي مؤطا الإمام محمد‘‘[4]میں لکھا ہے: ’’ألا إن ثبوته
Flag Counter