Maktaba Wahhabi

102 - 363
کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے‘‘۔ پس اس سند کا منقطع ہونا بھی واضح ہوا۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اس مناظرہ کو سنداً حکایت کرنے سے گریز کیا ہے اور اس کی تغلیط یوں فرماتے ہیں کہ: ’’حسی امور میں تفقہ کو کیا دخل ہے‘‘۔ امام رازی رحمہ اللہ کے اس قول کی شرح فرماتے ہوئے جناب محمد عبدالعزیز محدث رحیم آبادی (1338ھ) فرماتے ہیں: ’’امام رازی رحمہ اللہ نے تو اس قصہ کا غلط اور جعلی ہونا یوں کہہ دیا کہ یہ قصہ مہمل اور بے معنی ہے۔ غرض یہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایسے نہ تھے کہ ایسی مہمل بات کہتے اور امام اوزاعی رحمہ اللہ ایسے نہ تھے کہ ایسی مہمل بات پر چپ ہو جاتے الخ‘‘۔ [1] خود سید مرتضیٰ الزبیدی نے اس مناظرہ کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’شاذکونی حافظہ کے باوجود واہی ہے، مگر یہ قصہ مشہور ہے‘‘۔ [2] محمد عبدالعزیز محدث رحیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس فقہ راوی کی قید پر امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ کا مناظرہ بنایا گیا ہے – اس میں رفع الیدین نہ کرنے کی روایت کو اسی فقہ راوی کی بنا پر ترجیح دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ علقمہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر فقیہ ہے‘‘۔ [3] اس مناظرہ کی اسنادی کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لیکن اکثر احناف علو اسناد کے باوجود اس حدیث (یعنی روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) پر ابن مسعود کی حدیث کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی علت فقاہت رواۃ بتاتے ہیں۔ اس کی بنا امام ابو حنیفہ کے امام اوزاعی کے ساتھ ہونے والے مناظرہ کی حکایت پر ہے جسے ابن ھمام نے ابن عیینہ سے معلقاً روایت کیا ہے اور عصر حاضر کے علمائے حنفیہ نے اپنے حواشی میں اس کی اتباع کی ہے۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ حکایت ثابت نہیں ہے۔ ’’عقود الجواهر المنيفة في أدلة مذاهب الإمام ابي حنيفة‘‘[4]میں مذکور ہے کہ حارثی نے اپنی مسند میں محمد بن ابراہیم ثنا سلیمان بن داؤد الشاذکونی الخ سے روایت کی ہے۔ صاحب العقود کہتے ہیں: سلیمان الشاذکونی حافظہ کے ساتھ واہی بھی ہے اگرچہ کہ یہ قصہ مشہور ہے۔ ابن الترکمانی حنفی رحمہ اللہ ’’الجوہر النقی‘‘[5]میں فرماتے ہیں:
Flag Counter