کے اجتہادات کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جن میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں :
۱۔ غزوۂ بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرلینا جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور عتاب یہ آیت نازل فرمائی:
﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ (الانفال: ۶۷)
’’نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں، جب تک کہ ملک میں اچھی خونریز جنگ نہ ہوجائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زورآور باحکمت ہے۔‘‘
یہ آیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسیران بدر کے بارے میں ایک اجتہاد تھا۔[1]
۲۔ غزوۂ تبوک میں شرکت سے عذر پیش کر کے پیچھے رہ جانے والوں کو اجازت دینے کا واقعہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور عتاب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾ (التوبہ: ۴۳)
’’اللہ تجھے معاف فرمادے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے۔‘‘
یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں اجتہادی حکم دینے پر سرزنش کر رہا ہے۔[2]
۳۔ غزوۂ بنی قریظہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دینا کہ ہر آدمی بنی قریظہ کے محلہ میں پہنچ کر عصر کی نماز ادا کرے، لیکن کچھ افراد نے اپنے اجتہاد سے راستہ ہی میں عصر پڑھ لیا، اور کچھ حضرات نے وہاں پہنچ کر ادا کیا۔ لیکن اس اجتہاد پر
|