Maktaba Wahhabi

216 - 255
معاملات میں منفعت کا حصول، اور مضرت کا دفعیہ بھی۔ بالخصوص جب کہ مسؤل شخص تجربہ اور اختصاص کا حامل ہو۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (النحل: ۴۳) ’’اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو۔‘‘ ایسی صورت میں ایک عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلاتردّد سوال و جواب اور عدم معلومات پر چپ نہ رہے کہ دنیا وآخرت میں ناقابل انجام سے دوچار نہ ہو۔ عبدالحمید ہاشمی کہتے ہیں : ’’کسی بھی انسان کی ناواقفیت کے باوجود خاموشی اسے بہت سے ناکام تجربات اور آلام ومصائب سے دو چار کردیتی ہے، کیونکہ اگر وہ مناسب اور موافق جواب جانتا تو اپنے آپ کو درست عمل اور صائب روش پر قائم رکھتا، بالخصوص ان امور میں جن کا تعلق کوشش، خطا اور تجربہ سے ہو۔‘‘[1] سیرت کی کتابوں میں علم وتلقی معرفت کے لیے سوال سے تجاہل کرنے کے انجام بد کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ سوال کی اہمیت کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہن جب کسی دینی مسئلہ کو نہیں جانتے تھے تو اس کے علم کے لیے سوال کرنے کے بڑے حریص تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے قول: (وہ تجھ سے سوال کرتے ہیں ) اور(وہ تجھ سے سوال کرتے ہیں ) اور(وہ تجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں ) وغیرہ سے واضح کردیا ہے۔ سوال کا جذبہ صرف صحابہ کرام تک محدود نہیں تھا بلکہ صحابیات بھی اس باب میں آگے آگے رہتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’بہترین عورتیں، انصار کی عورتیں ہیں، جنہیں دینی امور کی تعلیمات کے لیے
Flag Counter