بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ﴾ (الانعام: ۱۵۳)
’’اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اتمام حجت کرنا چاہا تو صرف کتاب ہدایت نازل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رسولوں کو بھی بھیجا، اور یہ بھی اللہ کی رحمت ہی ہے کہ یہ رسول انسان ہوتے تھے جو لوگوں کی اقتدا واتباع کے لیے زیادہ مناسب اور موزوں ہے، کیونکہ اگر رسول کوئی فرشتہ ہوتا تو اس کے افعال وتصرفات سے عدم واقفیت کے سبب لوگ اپنے ضعف، عجز اور عدم استطاعت کو دلیل بنا کر اتباع کرنے سے انکار کردیتے۔
ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ () وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ ﴾(الانعام: ۸، ۹)
’’اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ اور اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا، پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی، اور اگر ہم اس کو فرشتہ بھی تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی(شکل میں ) بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اشکال اب کر رہے ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کامل اقتدا اور اتباع اپنے ہی جنس کے لوگوں کی کر سکتا ہے(دوسرے جنس کی نہیں )۔
|