ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے:
﴿ وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ ﴾(الانبیاء: ۴۷)
’’اور قیامت کے دن ہم درمیان لارکھیں گے ٹھیک تولنے والی ترازو کو، پھر کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا، ہم اسے لا حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں ایک فرد مسلم کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ محاسبۂ نفس کو سامنے رکھے تا کہ اس دنیا کے بعد آنے والی زندگی کے لیے سوالات کی تیاری کرسکے اور قیامت کی ہولناکی اور خوف ودہشت سے چھٹکارا پانے کا راستہ ڈھونڈ سکے۔
محاسبۂ نفس ہی دنیاوی زندگی کا وہ میزان ہے جس کی روشنی میں ایک مسلم فرد کتاب وسنت سے روشنی حاصل کر کے اپنی رفتار وگفتار اور کردار کو سنوار سکتا ہے۔
حارث محاسبی نے محاسبہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’محاسبہ یہ ہے کہ کسی کام کے دل میں سوچنے یا عملی طور سے کرنے یا نہ کرنے پر اس وقت تک غور کرتا رہے جب تک اس پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے تو وہ ان تمام چیزوں سے رک جائے اور اپنے آپ کو ان سے دور کرلے، بالخصوص فرائض کو ترک نہ کرے بلکہ اس کی ادائیگی میں جلدی کرے۔‘‘[1]
محاسبہ کی ایک تعریف یہ بھی ہے:
|