Maktaba Wahhabi

9 - 255
عرض ناشر انسان کی اپنی تربیت کا معیار معاشرے کی اصلاح کار میں اکائی کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ فرد ہی سے معاشرہ بنتا ہے۔ افراد کی اصلاح و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا، ساتھ ہی کتب سماویہ و صحائف بھی نازل فرمائے۔ اس سلسلے کے آخر میں ہمارے نبی اکرم، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن جیسی عظیم کتاب نازل فرما کر انسانیت کو علم و ہدایت کا بحرِ بیکراں سونپ دیا۔ احادیث نبویہ اور آیاتِ قرآنیہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اخلاق و ادب، سفر و حضر، نیند و بیداری، گفتگو اور خاموشی، معاشرے سے میل ملاپ، رشتہ داروں سے سلوک اور زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی معاملات کو کھول کھول کر بیان کر دیا تاکہ افراد و معاشرہ تربیت سے محروم نہ رہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ عہد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر اب تک ہر زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور قرآن کریم ہی محدثین و ائمہ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک تربیت اسلامیہ کا عظیم منبع رہے ہیں۔ سب نے انہی (کتاب و سنت)کی روشنی میں خود اپنی اور اپنے اہل و عیال اور تلامذہ کی تربیت کی اور دنیا والوں کو اچھی راہ دکھائی۔ کیا ہوا اگر آج اُمت اسلامیہ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے زوال پذیر ہے۔ کبھی وہ و قت بھی تھا کہ یورپ اور دیگر اقوام و ملل انہی سے اخلاق و کردار کی روشنی پاتے تھے۔ ان کے بڑوں نے ہمارے ہی اسلاف کی عظیم کتابوں سے نفع پایا اور پھر اُس علم پر کاربند ہو کر نہال ہو گئے مگر افسوس کہ اس کو تسلیم نہ کیا۔ اُس زمانہ ماضی سے لے کر آج تک اسلامی علمی سرمایہ ہی ’’انسانوں کی تربیت‘‘ کے لیے اصل ماخذ رہا ہے۔ وہی تربیت اسلامیہ کے عظیم اُصول آج بھی بعینہٖ اُسی طرح قرآن و سنت کی شکل میں
Flag Counter