سے لوگوں کی عطا اور صدقات سے محروم رہتا ہے۔
وہ اہل ایمان، جن کو اللہ جنت عطا فرمائے گا، ان کی ایک صفت دنیا میں یہ ہوگی کہ وہ اپنے مالوں میں سے مذکورہ افراد کا حق ادا کرتے رہے ہوں گے۔ ان کے برعکس جو بدبختانِ ازلی او رآخرت کا انکار کرکے جہنم کا ایندھن بننے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے:
﴿ أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ﴿١﴾ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ﴿٢﴾ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴾
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو جزاء (کے دن) کو جھٹلاتا ہے۔ پس یہی تو وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔‘‘[1]
15. بغیر ضرورت کے سوال کرنے پر سخت وعید
شریعت نے جہاں ایک طرف صاحب حیثیت لوگوں کو یہ تاکید کی کہ ان کے مالوں میں سائلین اور محرومین کا جو حق ہے، اسے صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ ضرورت مندوں کو در در پھرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ وہاں دوسری طرف کم حیثیت کے حامل لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی محدود اور تھوڑی آمدنی ہی میں گزارا کریں اور اللہ نے انہیں صحت اور کمانے کی قوت دی ہے، تو کماکر کھائیں ، لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر زکاۃ و صدقات کے مسائل بیان کرتے ہوئے سوال سے بچنے کی بھی تاکید فرمائی، آپ نے فرمایا:
((اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی، وَالْیَدُ الْعُلْیَا: الْمُنْفِقَۃُ
|