Maktaba Wahhabi

52 - 217
پرورش یتیم بچوں پر جو زکاۃ کی رقم خرچ کرتی ہوں ، وہ ٹھیک ہے، ان پر خرچ کرنے سے زکاۃ ادا ہوجاتی ہے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ تم خود ہی جاکر پوچھو (غالبًا شرم کی وجہ سے انہوں نے خودپوچھنا پسند نہیں کیا)، چنانچہ وہ خود گئیں اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے پچھوایا۔ ((أَیُجْزِیئُ عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلٰی زَوْجِي وَ أَیْتَامٍ لِّي فِي حَجْرِي؟)) ’’اگر میں اپنی زکاۃ کی رقم اپنے خاوند پر اور اپنے زیر پرورش یتیم بچوں پر خر چ کروں تو کیا وہ میری طرف سے ادا ہوجائے گی۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ اس کو جاکر بتلادو؟ ((نَعَمْ! وَلَہَا أَجْرَانِ، أَجْرُ الْقَرَابَۃِ، وَ أَجْرُ الصَّدَقَۃِ)) ’’ہاں ! اس طرح صرف زکاۃ ہی ادا نہیں ہوگی، بلکہ اسے دوگنا اجر ملے گا، ایک حق قرابت کی ادائیگی کا اور دوسراصدقے کا۔‘‘[1] 20. زکاۃ وصول کرنے والوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات زکاۃ کا مقصد غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں کی امداد اور خبرگیری کرناہے، علاوہ ازیں اسے بیت المال میں جمع کرکے پھر خرچ کرنے کامقصد بھی یہی ہے کہ اسے مستحقین تک زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے پہنچایا جائے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ وصول کرنے والوں کو بھی تاکید فرمائی کہ یہ ایک ملی و دینی امانت ہے، اس میں خیانت بہت بڑا جرم ہے جس کی سزا قیامت کے دن بھگتنی ہوگی۔ ایک حدیث میں
Flag Counter