آمدنی پر زکاۃ عائد ہوگی جو خاص قسم کے ہوں ، جیسے وقف علی الاو لاد وغیر ہ کیونکہ یہ وقف عام نہیں ہیں ، ان میں ملکیت خاص پائی جاتی ہے۔
33. ناجائز طریقے سے حاصل کردہ مال (حرام) سے زکاۃ و صدقہ
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ مالِ حرام جیسے غصب اور چوری کا مال، جھوٹ اور فریب سے حاصل کیا ہوا مال، اور رشوت اور سود کے ذریعے سے حاصل کردہ مال پاک مال نہیں ہے، اگر اس سے کوئی زکاۃ ادا کرتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں کیونکہ ایسا مال دراصل انسان کا اپنا نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت میں انھی لوگوں کا مال ہے جن سے اس نے (ناجائز ذرائع سے) حاصل کیا ہے اوراس کی اصل ذمّے داری یہ ہے کہ جن جن لوگوں سے اس نے یہ مال ہتھیایاہے، ان کو واپس کرے۔ یہ اس کا اپنا مال نہیں ، غیروں کا مال ہے۔ اس میں سے کچھ حصہ بطور زکاۃ نکال دے اور کچھ اپنے پاس رکھے، اس کی گنجائش نہیں ، کیونکہ یہ کل کا کل قابل واپسی ہے۔ اگر اصل مالک نہیں ملتے تو ان کے ورثاء کو دے دیا جائے ان کا بھی پتہ نہیں چلتا تو سب مال مساکین و ضرورت مندوں کو وضاحت کیے بغیر دے دیا جائے، یعنی یا تو سارے کا سارا مال اس کے اصل مالکوں کو یا اس کے ورثاء کو واپس کیا جائے اگر وہ نہیں تو اپنے سے الگ کر کے محتاجوں کو دے دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے بھی اس پہلو کی خوب وضاحت ہوجاتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾
|