اطلاق ہوگا، چاہے وہ یتیم کا مال ہو، بشرطیکہ وہ مقدار نصاب کا حامل ہو اور ’’حولانِحول‘‘ ہوچکا ہو۔ مجنون بھی یتیم کے حکم میں ہے اور اس کے والی اور سرپرست کی ذمّے داری ہے کہ اگر وہ صاحب اموال و جائیداد ہے تو اس کے مال کو کاروبار میں لگائے اور پابندی سے اس کی زکاۃ ادا کرے۔ اسی طرح کوئی بچہ ہے جو یتیم نہیں ہے، اس کو بطور ہبہ یا بطورِ وصیت کہیں سے مال ملے، تو مذکورہ شرائط کے مطابق اس میں سے بھی زکاۃ نکالی جائے گی۔
30. ادائیگیٔ زکاۃ کے لیے ملکیت تامہ ضروری ہے
زکاۃ اس مال میں سے نکالی جائے گی جس میں انسان کو ملکیت تامہ حاصل ہو گی۔ ملکیت تامہ کا مطلب ہے کہ وہ مال اس کے دست تصرف میں ہو۔ اس کو جس طرح چاہے خرچ کرے، اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہ ہو، اور اس مال کے تجارتی فوائد میں وہ بلاشرکت غیرے مالک ہو۔
31. بیت المال کی رقم میں زکاۃ نہیں
یہی وجہ ہے کہ بیت المال کی رقم میں زکاۃ نہیں ، چاہے وہ تعداد میں کتنی ہی ہو اور چاہے وہ سالوں پڑی رہے۔ کیونکہ وہ قوم کا مشترکہ مال ہے، کسی ایک شخص کی ملکیت میں نہیں ہے۔
32. شرعی وقف پر بھی زکاۃ نہیں
اسی طرح ایسی جائیداد کی آمدنی پر بھی زکاۃ نہیں جو کسی دینی اور رفاہی مقصد کے لیے وقف ہو، کیونکہ اس میں بھی ملکیت تامہ کسی کو حاصل نہیں ، البتہ ایسے اوقاف کی
|