Maktaba Wahhabi

165 - 217
استعمال کرنے والا سوا دو کلو چاول یا اس کی قیمت ادا کرے۔ اس حساب سے ہر شخص اپنے تمام چھوٹے بڑے افرادِ خانہ کی طرف سے فی کس ایک صاع گندم یا ایک صاع چاول کے حساب سے صدقۂ فطر یا اس کی قیمت ادا کرے۔ اس صدقے سے گھر کا کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے، شیر خوار بچے سے لے کر شیخ فانی تک سب کی طرف سے ادا کیا جائے۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کی طرف سے بھی ادا کیا جائے۔ 8. صدقۃ الفطر کا مصرف صدقۂ فطر کے اصل مستحق صرف غرباء و مساکین ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔ اس لیے مقامی اور اہل محلہ فقراء و یتامیٰ اور مساکین ہی کو یہ صدقہ دیا جائے، ہاں کسی علاقے میں غرباء ومساکین کا وجود نہ ہو تو پھر اسے زکاۃ کے مصارفِ ثمانیہ میں سے کسی ایک مصرف پرخرچ کیاجاسکتاہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ((وَکَانَ مِنْ ہَدْیِہِ صلي اللّٰه عليه وسلم تَخْصِیصُ الْمَسَاکِینِ بِہٰذِہِ الصَّدَقَۃِ وَ لَمْ یَکُنْ یَّقْسِمُہَا عَلَی الْأَصْنَافِ الثَّمَانِیَۃِ قَبْضَۃً قَبْضَۃً وَلَا أَمَرَ بِذٰلِکَ وَ لَا فَعَلَہُ أَحَدٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ وَلَا مَنْ بَعْدَہُمْ)) ’’صدقۂ فطر کی تقسیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ نے اسے صرف مساکین کے ساتھ ہی خاص رکھا اور (قرآن میں مذکور) آٹھ قسموں پر اسے مٹھی مٹھی کرکے تقسیم نہیں کیا اور نہ اس کا حکم ہی دیا اور نہ آپ کے بعد صحابہ و تابعین نے ایسا کیا۔‘‘[1]
Flag Counter