Maktaba Wahhabi

112 - 217
’’پانچ اوقیے سے کم میں زکاۃ نہیں ۔ پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں اور پانچ وسق (تین سو صاع) سے کم میں زکاۃ نہیں ۔‘‘[1] صحیح بخاری کی حدیث میں اوقیے کا لفظ استعمال ہوا ہے، اوقیہ وزن کا ایک معیار ہے اور یہ چاندی کا اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا، یوں پانچ اوقیے، دو سو درہم ہوگئے۔ ان دونوں حدیثوں سے چاندی کا نصاب دو سو درہم ثابت ہوا، جس کا وزن ساڑھے باون تولہ ہوا۔ آج کل کے حساب سے 612گرام 360ملی گرام۔ اس میں زکاۃ چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) ہے، یعنی دو سو درہم میں پانچ درہم۔ آج کل کے حساب سے 15 گرام 305ملی گرام، (اگر چاندی ہی زکاۃ میں دینی ہو۔) لیکن اگر زکاۃ چاندی کی بجائے نقدی میں دینی ہو، توساڑھے باون تولہ چاندی کی جتنی رقم بنتی ہو، (مثلاً اتنی چاندی 35 ہزار روپے میں آتی ہو تو) ڈھائی فی صد کے حساب سے 35 ہزار میں آٹھ سو پچھتر روپے زکاۃ بنے گی۔ یہ کم از کم نصاب ہے یعنی اس سے کم میں زکاۃ عائد نہیں ہوگی۔ اس سے زیادہ جتنی چاندی ہوگی مذکورہ حساب سے اس کی رقم بناکر زکاۃ ادا کی جائے۔ سونے کا نصاب سونے کے نصاب کے لیے ایک تو درج ذیل حدیث کے عموم سے استدلال کیا جاتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَا مِنْ صَاحِبِ ذَہَبٍ وَلَا فِضَّۃٍ لَا یَؤَدِّیْ مِنْہَا حَقَّہَا اِلَّا اِذَا کَانَ
Flag Counter