((فان ارضعن لکم فآتوہن اجورہن))
’’اگر (تمہاری مطلقہ بیوی) تمہارے بچوں کو دودھ پلائے تو تم ان کو اس کا معاوضہ دو۔‘‘[1]
((و علی المولودلہ رزقہن و کسوتہن بالمعروف))
’’اور باپ کے ذمے ہے اپنے بچوں کی ماؤں کو دستور کے مطابق کھانا اور کپڑا دینا۔‘‘[2]
ان آیات سے واضح ہے کہ اولاد کی کفالت تمام تر والد کے ذمے ہے، ماں کے ذمّے نہیں ، اس لیے ماں اگر صاحبِ حیثیت ہے تو وہ فقیر مسکین قسم کے والد کے بچوں پر زکاۃ کی رقم خرچ کرسکتی ہے۔
خاوند بیوی کو زکاۃ نہیں دے سکتا، والدین اور اولاد کو بھی نہیں دی جاسکتی
البتہ خاوند اپنی بیوی پر زکاۃ کی رقم خرچ نہیں کرسکتا کیونکہ بیوی کے نان نفقہ اور دیگر تمام ضروریات کا ذمے دار خاوند ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
((وَ قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: أَجْمَعُوا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ لَا یُعْطِيْ زَوْجَتَہُ مِنَ الزَّکَاۃِ لِأَنَّ نَفْقَتَہَا وَاجِبَۃٌ عَلَیْہِ فَتَسْتَغْنِيْ بِہَا عَنِ الزَّکَاۃِ))
’’امام ابن المنذر نے کہا: اس بات پر اجماع ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو زکاۃ نہیں دے سکتا، اس لیے کہ اس کا خرچہ خاوند کے ذمّے ہے، پس وہ اس خرچے کی وجہ سے زکاۃ سے مستغنی ہے۔‘‘[3]
|