امام قرطبی لکھتے ہیں :
((وَلَا یَجُوزُ أَنْ تُّعْطِيَ مِنَ الزَّکَاۃِ مَنْ تَلْزَمُہُ نَفَقَتُہُ وَ ہُمُ الْوَالِدَانِ وَالْوَلَدُ وَالزَّوْجَۃُ))
’’یہ جائز نہیں ہے کہ آدمی اپنی زکاۃ اس کو دے جس کا نفقہ (خرچہ) اس کے ذمّے ہے جیسے ماں باپ ہیں ، اولاد ہے اور بیوی ہے۔‘‘[1] یعنی ان تینوں کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔
مقروض ہونے کی صورت میں مذکورہ افراد کو زکاۃ دی جاسکتی ہے
بیوی یا والدین یا اولاد اگر کسی وجہ سے مقروض ہوجائیں اور قرض ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھیں تو ان افراد کو زکاۃ دینا جائز ہے، یہ اس وقت غارمین میں شمار ہوں گے۔ اسی طرح اولاد (بیٹی وغیرہ) شادی کے بعد مصارف زکاۃ میں سے ہوجائیں تو اس صورت میں ان کو بھی زکاۃ دی جاسکتی ہے۔[2]
اس مسئلے کی کچھ تفصیل اس سے قبل باب چہارم میں بھی گزرچکی ہے۔
زیور میں زکاۃ
زیور (سونے کا ہو یا چاندی کا) اس کی بابت اختلاف ہے، اس کی مختصر تفصیل مشترکہ مسائل میں بیان ہوچکی ہے۔ یہاں اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر مزید مختصرًا گفتگو مناسب معلوم ہوتی ہے۔
زیور میں زکاۃ ہے یا نہیں ؟ علماء کا ایک گروہ اس کا قائل نہیں لیکن یہ رائے مرجوح
|