ملتی ہے کیونکہ وہ جمع بھی تھوڑی ہی رقم کراتا ہے، مالدار کو زیادہ رقم ملتی ہے کیونکہ وہ رقم بھی زیادہ جمع کراتا ہے۔ اس کے برعکس جس شخص کو زکاۃ دی جاتی ہے، اسے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے نہ وہ کوئی متعین آدمی ہی ہوتا ہے، بلکہ جو بھی مستحق ہوگا، وہ زکاۃ لینے کا حق دار ہوگا اور دوسرے مسلمانوں پر اس کی مدد کرنی واجب ہوگی۔ اس لحاظ سے اسلام کا نظامِ زکاۃ ایک بہترین نظام ہے جو ضرورت مندوں کی بے لوث خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی و غم خواری پر مبنی ہے۔ کاش! مسلمان صحیح طریقے سے اسلام کے اس نظام کو اپنا سکیں ، تاکہ دنیا اس کے ثمرات و برکات کا مشاہدہ کرسکے۔
بہر حال بات ہورہی تھی بیمے کی رقم کی کہ اگر وہ ملے، تو اس میں زکاۃ ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کس حساب سے اسے نکالا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں زکاۃ صرف اس مال میں ہو گی جو اس نے جمع کرائی ہو گی اگر وہ نصاب کی حد تک یا اس سے زیادہ ہوگی۔ باقی رقم جو ہو گی وہ سودی ہونے کی وجہ سے ناقابل انتفاع ہے، یعنی اس کا لینا ہی اس کے لیے جائز نہیں ہے تو اس میں زکاۃ نکالنے کا کیا مطلب؟
39.مشینری وغیرہ میں زکاۃ نہیں
جس طرح رہائشی مکان اور اسی طرح گھر میں استعمال میں آنے والی اشیاء پر زکاۃ نہیں ، یا جیسے ہل جوتنے یا رہٹ چلانے والے بیل اونٹوں پر زکاۃ نہیں ۔ اسی طرح کارخانوں کی عمارتوں اور مشینریوں پر زکاۃ نہیں ۔ ان پر بھی اگر زکاۃ ہوتی تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، کیونکہ بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں روپے کارخانوں اور مشینریوں پر لگانے کے باوجود، کئی سال تک کوئی نفع نہیں ہوتا، اس صورت میں اگر کارخانے دار کو کاروبار میں لگائے ہوئے لاکھوں یا کروڑوں روپے کی ڈھائی فیصد
|