Maktaba Wahhabi

194 - 217
باعث نہ رہا۔[1] امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس اثر پر جو باب باندھا ہے، اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔ ’’جس کی زکاۃ ادا کردی گئی، وہ کنز نہیں ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ لغت میں کَنْز اس خزانے کو کہتے ہیں جو زمین میں دفن کرکے محفوظ کرلیا جائے (جیسے پرانے زمانے میں کیا جاتا تھا) لیکن شرعی احکام کی رُو سے جس مال کی زکاۃ نہ دی جائے، چاہے وہ سونا چاندی ہو یا نقد رقم، وہ کنز ہے اور اس کے لیے وہ سخت وعید ہے جو سورۂ توبہ کی مذکورہ آیت میں بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب اوراس کے تحت اس اثرِ ابن عمر کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بھی زیور میں زکاۃ کے قائل ہیں ۔ سونے چاندی کا نصاب سونے چاندی کا نصاب کیا ہے؟ یعنی ان کی زکاۃ کب اور کس طرح نکالی جائے؟ چاندی کا نصاب تو صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ وہ پانچ اوقیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَۃٌ)) ’’پانچ اوقیے سے کم میں زکاۃ نہیں ۔‘‘[2] ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا۔ چاندی کا تھا۔ اس اعتبار سے دو سو درہم، چاندی کا نصاب ہوا۔ ایک درہم تقریبًا 2.975گرام چاندی کا ہوتا ہے، اس طرح
Flag Counter