اسے رد کرے اور اگر مستحق کی عادت یہ ہو کہ وہ زکاۃ لے لیتا ہو تو بہتر یہ ہے اسے نہ بتایا جائے کیونکہ اس میں ایک طرح سے احسان دھرنے کا پہلو بھی ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ ﴾
’’اے مومنو! اپنے صدقات (وخیرات) احسان دھرنے اور ایذا دینے سے برباد نہ کردینا۔‘‘[1]
کیا زکاۃ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے؟
سوال : ایک جگہ سے دوسری جگہ زکاۃ منتقل کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب : مصلحت کے پیش نظر انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ زکاۃ منتقل کرسکتا ہے۔ اگر انسان کے مستحق رشتہ دار کسی دوسرے شہر میں رہتے ہوں ، تو ان کی طرف زکاۃ بھیجنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح انسان کے اپنے شہر کے لوگوں کی مالی حالت بہت اچھی ہو اور وہ کسی دوسرے ایسے شہر میں زکاۃ بھیج دے جہاں کے باشندے زیادہ فقیر ہوں تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر ایک شہر سے دوسرے شہر میں زکاۃ بھیجنے میں ایسی کوئی مصلحت نہ ہو تو پھر نہ بھیجی جائے۔
|