((یُعْطٰی مِنَ الصَّدَقَۃِ فِي الْکُرَاعِ وَ السِّلَاحِ وَمَا یُحْتَاجُ إِلَیْہِ مِنْ اٰلَاتِ الْحَرْبِ وَ کَفِّ الْعَدُوِّ عَنِ الْحَوْزَۃِ لِأَنَّہُ کُلَّہُ مِنْ فِي سَبِیلِ الْغَزْوِ وَ مَنْفَعَتِہِ وَ قَدْ أَعْطَی النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنَ الصَّدَقَۃِ مِائَۃَ نَاقَۃٍ فِي نَازِلَۃِ سَہْلِ بْنِ أَبِيْ حَثْمَۃَ إِطْفَائً لِّلثَّائِرَۃِ))
’’حاجت و ضرورت کے مطابق آلاتِ حرب، گھوڑے اورہتھیار خریدنے اور دشمن کو اپنے ملک سے دفع کرنے کے لیے زکاۃ کا مال خرچ کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی میں داخل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل بن ابی حثمہ کے قتل کے سلسلے میں فتنہ و فساد سے لڑائی کا شعلہ سرد کرنے کے لیے زکاۃ کے سواونٹ خرچ کیے تھے۔‘‘[1]
حج بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے
کیونکہ اس کی وضاحت بعض حدیثوں میں آگئی ہے،چنانچہ ام معقل رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے:
((قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم : اَلْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ مِنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ))
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا، فی سبیل اللہ میں حج اور عمرہ داخل ہیں ۔‘‘[2]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے، مگر اس میں عمرے کا ذکر شاذ ہے، یعنی عمرے کے بغیر یہ روایت صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج کا فی سبیل اللہ میں
|