نہیں ہوئیں ؟ اور نت نئے تقاضوں نے سر نہیں ابھارا؟ اگر منصوص احکام میں تبدیلی کی ذرا بھی گنجائش ہوتی تو کیا آج تک اسلام کا ہر حکم بدل نہ چکا ہوتا؟ یا اب اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو کیا پورے اسلام کا تیاپانچہ ہو کر نہیں رہ جائے گا؟ اسلام اپنی اصلی حالت میں اب تک موجود صرف اسی لیے ہے کہ ایک طرف اس کے منصوص احکام غیر متبدل ہیں ۔ دوسری طرف اس میں اتنی جامعیت ہے کہ منصوص احکام میں تبدیلی کیے بغیر وہ ہر دور کے تقاضوں سے عہدہ برآہو سکتا ہے۔ نصوص قرآن و حدیث کی یہی وہ ہمہ گیر وسعت ہے جو اس کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام میں تشکیک پیدا کرنے والے اور اس میں قطع و برید کا مشورہ دینے والے اسلام کے خیر خواہ نہیں ، اس کے دشمن ہیں ۔ وہ اس کے روئے آب دار کو مسخ کرنا چاہتے ہیں اور اس کی جامعیت وہمہ گیریت کو ختم کرکے درحقیقت اس کو اپنے نفسانی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔
زکاۃ شرعاً عبادت ہے، ٹیکس نہیں
دراصل ایسے لوگ جو زکاۃ کی شرعی حیثیت میں غلط فہمی یا مغالطے کا شکار ہیں وہ زکاۃ کو ایک قسم کا حکومتی ٹیکس سمجھتے ہیں جس میں حکومتِ وقت کو اپنی ضروریات اور حالات و ظروف کے مطابق کمی بیشی کا حق ہوتا ہے۔ (’’طلوع اسلام‘‘ کے اداریہ نویس نے بھی زکاۃ کا خود ساختہ مفہوم اس کو ٹیکس سمجھتے ہوئے ہی بیان کیا ہے) حالانکہ زکاۃ ٹیکس نہیں ، عبادت ہے۔ بنابریں اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے زکاۃ کی تعبدی شان کا سمجھنا بڑا ضروری ہے۔
چند امور پر غور کرنے سے زکاۃ کی تعبدی حیثیت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔
|