Maktaba Wahhabi

206 - 217
جسے ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کیا جائے گا۔‘‘[1] صحیح بخاری میں یہ حدیث انہی الفاظ کے ساتھ ہے۔ بہر حال کتاب وسنت کی دلیل سے معلوم ہوا کہ زکاۃ اور قرض میں تعارض نہیں کیونکہ قرض کسی آدمی کے ذمے واجب ہے اور زکاۃ مال میں واجب ہے یعنی ہر ایک کے وجوب کا اپنا اپنا مقام ہے، لہٰذا ان میں تعارض اورتصادم نہیں ہے۔ قرض مقروض کے ذمے واجب ہے لیکن زکاۃ مال میں واجب ہے، جو اسے ہر حال میں ادا کرنی ہوگی۔ زکاۃ میں تاخیر کرنے والا گناہ گار ہے سوال : ایک شخص نے چار سال تک زکاۃ ادا نہیں کی، اس کے لیے کیا لازم ہے؟ جواب : یہ شخص زکاۃ ادا کرنے میں تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہے کیونکہ آدمی پر واجب ہے کہ وہ وجوب زکاۃ کے بعد فورًا زکاۃ ادا کرے اور اس میں تاخیر نہ کرے کیونکہ واجبات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ انہیں فوراً ادا کیا جائے۔ اس شخص کو اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کرنی چاہیے اور گزشتہ سالوں کی زکاۃ فوراً ادا کرنی چاہیے۔ اس سے زکاۃ ساقط نہیں ہوگی بلکہ اسے توبہ کرنی اور فوراً زکاۃ ادا کرنی چاہیے تاکہ تاخیر کی وجہ سے وہ مزید گناہ گار نہ ہو۔
Flag Counter