Maktaba Wahhabi

205 - 217
بعض نے اس میں فرق کیا ہے اگر مال کا تعلق اموال باطنہ سے ہو جو نہ نظر آتے اور نہ دیکھے جاسکتے ہوں ، مثلاً نقدی اور سامان تجارت وغیرہ تو قرض کے مقابل مال سے زکاۃ ساقط ہوجائے گی اوراگر مال کا تعلق اموال ظاہرہ مثلاً مویشیوں اور زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے ہو تو زکاۃ ساقط نہیں ہوگی۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ زکاۃ ساقط نہیں ہوگی، خواہ مال ظاہر ہو یا غیر ظاہر۔ جس کے ہاتھ میں بھی اس قدر مال ہو جس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی۔ اسے اپنے مال کی بہرصورت زکاۃ ادا کرنی چاہیے خواہ اس کے ذمہ قرض ہو کیونکہ زکاۃ مال میں واجب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ ’’ان کے مال میں سے زکاۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو اوران کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے، اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘[1] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجتے ہوئے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ((أَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً فِي أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ وَ تُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِہِمْ)) ’’انہیں معلوم کرادو کہ اللہ نے ان کے مالوں میں زکاۃ کو فرض قرار دیا ہے۔
Flag Counter