Maktaba Wahhabi

204 - 217
مطابق ہو اور وہ یہ کہ صدقہ اللہ عزوجل کے لیے اخلاص کے ساتھ ہو، حلال کمائی سے ہو اور صحیح جگہ پر صدقہ کیا جائے۔ شرعی دلائل کے تقاضے کے مطابق انھی شرائط کے ساتھ صدقہ مقبول ہوگا۔ اس سلسلہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ انسان پر قرض نہ ہو لیکن اگر قرض اس کے سارے مال کے بقدر ہو تو حکمت اور عقل کا یہ تقاضا نہیں کہ انسان صدقہ کرے، جو کہ مستحب ہے واجب نہیں ، اور قرض کو ترک کردے جو واجب ہے، لہٰذا پہلے واجب کو ادا کرنا چاہیے اور پھر صدقہ کرنا چاہیے۔ اہلِ علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو صدقہ کرے اور اس پر اس کے سارے مال کے بقدر قرض ہو۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس کے لیے یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں صاحب قرض کا نقصان ہے اور واجب قرض کی صورت میں اپنے ذمے کو باقی رکھنا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ جائز ہے لیکن خلاف اولیٰ ہے۔ بہر حال جس انسان کے ذمے اس کے اپنے سارے مال کے بقدر قرض ہو، اسے صدقہ نہیں کرنا چاہیے حتی کہ وہ اپنے قرض کو ادا کردے کیونکہ واجب نفل سے مقدم ہے۔ جہاں تک ان حقوق شرعیہ کا تعلق ہے، جو مقروض کے لیے معاف ہیں ، ان میں سے ایک توحج ہے۔ مقروض انسان پر حج واجب نہیں حتی کہ وہ اپنے قرض کو ادا کردے۔ زکاۃ کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ یہ مقروض سے ساقط ہے یا نہیں ؟ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ قرض کے مقابل زکاۃ ساقط ہوجائے گی خواہ مال ظاہر ہو یا ظاہر نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ قرض کے مقابل زکاۃ ساقط نہیں ہوگی بلکہ اسے اپنے سارے مال کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، خواہ اس پر قرض ہو، جو نصاب کو کم کرتا ہو۔
Flag Counter