دوم: یہ کہ سودی نظام تو ختم نہیں کیا اور اس میں زکاۃ کی پیوند کاری کردی۔ اس کا نتیجہ اس مذاق کی صورت میں نکلا کہ ایک طرف بنک 8،9 فی صد سود دیتے رہے اور دے رہے ہیں اور اس سود میں سے ڈھائی فی صد زکاۃ کاٹ لیتے ہیں ۔ اس طرح اسلام کے نظام زکاۃ کو ایک تو باطل کے فروغ کا ذریعہ بنادیاگیا۔ دوسرا، سود میں سے زکاۃ کاٹ کر اس کو مذاق اور استہزا بنا دیا گیا۔ بھلا اس طرح زکاۃ ادا ہوسکتی ہے؟ نہیں ، یقینا نہیں ، اس لیے بنکوں کا زکاۃ وصول کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ اس طرح زکاۃ ہی ادا ہوتی ہے۔
26. ٹیکس لگانے کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں
یاد رہے کہ حکومت اپنے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکس لگاسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں ۔
1. ٹیکس کی شرح معمولی ہو۔ ٹیکسوں کی بھرماریا ظالمانہ حد تک اس کی شرح، ملک و قوم کی تباہی کا باعث ہے۔ جیسے بدقسمتی سے اس وقت ہمارا ملک اس کا ایک نمونہ ہے۔ یہاں ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام نے ایک تو صنعت و حرفت کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ پھیلنے کی بجائے سکڑرہی ہے۔ دوسرے، تاجر طبقہ ہیرا پھیری کرنے پر مجبور ہے۔ اس نے پوری قوم کو ٹیکس چور بنادیا ہے۔
2. دوسری شرط یہ ہے کہ عمال حکومت (صدر، وزیراعظم سے لے تمام اہل کارانِ حکومت) کا معیارِ زندگی، عام لوگوں کے معیار سے بڑھ کر نہ ہو۔ بلکہ وہ عوام سے بھی زیادہ سادہ زندگی اختیار کرنے والے ہوں ۔ تاکہ قومی محاصل قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں ، وہ حکمرانوں کے الَلوں تَلَلوں ہی پر خرچ نہ ہوجائیں ۔ اس اعتبار سے بھی
|