((اَلَّتِي تَسُرُّہُ إِذَا نَظَرَ، وَ تُطِیْعُہُ إِذَا أَمَرَ، وَ لَا تُخَالِفُہُ فِيْ نَفْسِہَا وَ مَالِہَا بِمَا یَکْرَہُ))
’’وہ عورت بہتر ہے جب خاوند اس کو دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے، جب اس کو حکم دے، تو اسے بجالائے اور اپنے نفس اوراپنے مال میں خاوند کی ایسی مخالفت نہ کرے جو اس کو ناپسند ہو۔‘‘[1]
بعض راویوں نے ’’مَالِہَا‘‘ کے بجائے ’’مَالِہِ‘‘ روایت کیا ہے یعنی خاوند کے مال میں ناپسندیدہ تصرف نہ کرے۔ حافظ ابن حزم نے اسی ’’مَالِہِ‘‘ کو ترجیح دی ہے۔[2]
مال عورت کا ہو یا خاوند کا، خاوند عورت کے مالی تصرف کو اسی وقت ناپسند کرتا ہے جب عورت اعتدال کو اور اپنے گھریلو حالات بالخصوص خاوند کی آمدنی اور کاروبار کو خرچ کرتے وقت ملحوظ نہ رکھے اور فضول خرچی کی حد تک پہنچ جائے یا گھریلو بجٹ زیر و زبر ہوجائے۔
اگر عورت ایسا نہیں کرتی بلکہ صورت حال کو سامنے رکھتی ہے، نیت میں بھی خرابی نہیں ہے، خاوند کی بھی خیر خواہ ہے تو خاوند کی طرف سے اجازت ہو یا نہ ہو، اس کا انفاق فی سبیل اللہ یقینا باعث اجر ہی ہوگا، إِنْ شَائَ اللّٰہ۔ اور کوئی بعید نہیں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس کے خاوند کو بھی اجر میں برابر کا شریک کرلے۔ واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔
عورت اپنے خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے
عورت اگر مال دارہے اور اس کا خاوند اتنا غریب ہے کہ مسکین اور فقیر کی تعریف
|