نہ کرے؟ آپ نے فرمایا: یہ تو ہمارا بہترین مال ہے۔‘‘[1]
ان احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جن احادیث میں خرچ کرنے کی اجازت ہے، ا ن میں غَیْرَ مُفْسِدَۃٍ کے الفاظ بھی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی نیت گھر کا نظام بگاڑنے کی نہ ہو، دوسری بات یہ ہے کہ وہ اتنی مقدار میں خرچ کرے کہ جس سے گھریلو اخراجات پر اس کا خاص اثر نہ پڑے۔ اس طرح کے تھوڑے سے خرچ کے لیے عورت کو اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے یا خاوند اس کو خرچ کرنے سے روکے بھی، تب بھی وہ اتنی مقدار میں خرچ کرنے کی مجاز ہے جس سے گھریلو بجٹ متأثر نہ ہو۔ اور جن روایات میں خرچ کرنے سے روکا گیا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ اتنی زیادہ مقدار میں وہ خرچ کردے کہ اس کی وجہ سے گھریلو بجٹ اس طرح متأثر ہوجائے کہ خاوند کے لیے اس کی تلافی ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو۔ یا عورت کا مقصد ہی گھر کے نظام کو بگاڑنا اور خاوند کو مشکلات میں ڈالنا ہو۔ اس صورت میں واقعی خاوند اگر عورت کو روکے تو اس کا روکنا بھی جائز ہے اور عورت کو خرچ کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
درج ذیل حدیث بھی اسی روشنی میں پڑھی جانی چاہیے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:
((أَيُّ النِّسَائِ خَیْرٌ))
’’کون سی عورت سب سے بہتر ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا:
|