اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو زیادہ واضح بھی کہا ہے: لٰکِنِ الَّذِیْ یَظْہَرُ أَنَّ حَمْلَہُ عَلَی الْمَالِکِ أَظْہَرُ، وَ اللّٰہُ أَعْلَمُ (فتح الباري: 396/3) تاہم امام شافعی نے کہا ہے کہ اپنے اپنے اعتبار سے اس کے مخاطب دونوں ہی ہیں صاحب مال بھی اور زکاۃ وصول کرنے والا بھی۔ ان میں سے ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ وہ زکاۃ کے نقطۂ نظر سے جمع و تفریق نہ کرے، صاحب مال ایسا اس خوف سے نہ کرے کہ زکاۃ عائد نہ ہواور زکاۃ وصول کرنے والا یہ سوچ کر ایسا نہ کرے کہ زکاۃ زیادہ وصول ہو۔ (حوالۂ مذکور)
اس اعتبار سے عاملین زکاۃ (زکاۃ وصول کرنے والے سرکاری کارندوں ) کو مالکوں پر ظلم و جبر کرنے سے روک دیا گیا ہے کہ وہ زکاۃ زیادہ بنانے کے لیے زبردستی متفرق جانورں کو اکٹھا، یا مجتمع جانوروں کو متفرق نہ کریں ، بلکہ ارباب مال جس طرح وضاحت کریں ، اسے تسلیم کرکے اس کے مطابق زکاۃ وصول کریں ۔ اسی طرح ارباب اموال کو تاکید کردی کہ وہ بھی زکاۃ سے بچنے یا اس کو کم کرنے کے لیے حیلہ سازی سے کام نہ لیں اور اس غرض سے زکاۃ کے موقعے پر جمع و تفریق نہ کریں ،بلکہ سارا سال مویشیوں کی جو صورت حال رہی ہے، اسے برقرار رکھیں اور اس میں تبدیلی نہ کریں ۔
سال کے دوران میں ہونے والے بچوں کا حکم
اونٹ، گائے اور بکریاں ، ان کے دوران سال میں ہونے والے بچے بھی سال کے اختتام پر زکاۃ دیتے وقت شمار کیے جائیں گے اور ا ن کی زکاۃ ادا کی جائے گی۔ اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اسی کے مطابق
مذکورہ جانوروں کے بچوں کی بھی زکاۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔[1]
|