ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ الفاظ ارشاد فرمائے توحدیث کے راوی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یہ لوگ نامراد ہوئے اور خسارے میں رہے، اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا، ایک وہ جواپنی ازار (شلوار، پاجامہ اور دھوتی وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکاتاہے۔ دوسرا، احسان کرکے احسان جتلانے والا اور تیسرا وہ شخص جو جھوٹی قسم کھاکر اپنا سودا خریدنے کی لوگوں کو ترغیب دیتا ہے۔‘‘[1]
عام طورپر لوگ مذکورہ دونوں باتوں کی پروا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے بہت سے سفید پوش لوگ، ضرورت مند ہونے کے باوجود۔ اسی طرح ایک غریب رشتے دار اپنے دوسرے مال دار رشتے دار سے مستحق ہونے کے باوجود، زکاۃ کی رقم لینا پسند نہیں کرتا، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ زکاۃ یا صدقہ دینے والا بعد میں انہیں احسان جتلا کریا لوگوں میں ڈھنڈورا پیٹ کر ان کی تذلیل اور ان کی عزت ووقار کو مجروح کرے گا۔
قرآن کریم کے پر حکمت الفاظ
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اکثر مقامات پر مستحق رشتے داروں کے لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں :
﴿ وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴾
’’رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو دو اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘[2]
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
|