Maktaba Wahhabi

200 - 217
اس لیے ہر سال مارکیٹ ویلیو کے حساب سے اس کی زکاۃ نکالنی ہوگی، اگر کبھی اتفاق سے اس کی قیمت، قیمت خرید سے کم ہوجائے توزکاۃ بھی اسی حساب سے ہوگی۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ پلاٹ تو لاکھوں یا کروڑوں کا ہوتا ہے لیکن زکاۃ کی ادائیگی کے لیے نقد رقم موجود نہیں ہوتی، ایسی صورت میں وہ پلاٹ جب بھی فروخت ہو، گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ ادا کی جائے۔ شیئرز(حِصَص) میں زکاۃ مختلف کمپنیوں کے شیئرز خرید کر رکھ لیے جاتے ہیں جن کی قیمت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے کبھی قیمت کم کبھی زیادہ ہوجاتی ہے، بعض دفعہ قیمت جامد ہوجاتی ہے۔ اس کی حیثیت بھی سامانِ تجارت ہی کی ہے، ان حِصص کی بھی بازار کے بھاؤ (مارکیٹ ویلیو) کے حساب سے زکاۃ کی ادائیگی ضروری ہے۔ سال مکمل ہونے پر ان کی قیمت معلوم کی جائے اور پھر ڈھائی فی صد کے حساب سے زکاۃ ادا کردی جائے۔ گویا زکاۃ نکالتے وقت قیمتِ خرید کو نہیں بلکہ اس وقت کی قیمتِ فروخت کو دیکھا جائے گا جو قیمتِ خرید سے کم بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ بھی، یا جامد ہونے کی صورت میں قیمت خریدہی۔ اس طریقۂ زکاۃ میں نہ مستحقینِ زکاۃ کا نقصان ہوگا اور نہ صاحبِ مال کا۔ اس لیے کہ حِصص کی قیمت زیادہ ہونے پر زکاۃ کی مقدار بھی زیادہ ہوگی جس میں مستحقین کا فائدہ ہے اور قیمت کم ہونے کی صورت میں زکاۃ کی مقدار کم ہوگی، اس میں صاحبِ مال (شیئرز ہولڈر) کا نقصان زیادہ نہیں ہوگا، اس کو زکاۃ اصل مال سے نکالنی ہوکی جس سے اس کے شیئرز کی قیمت میں کمی کا اس کو زیادہ احساس نہیں ہوگا۔
Flag Counter