دفعہ ضرورت پڑنے پر ان کو بیچ کر ان کی رقم کاروبار میں یا گھر یلو ضروریات میں استعمال کر لی جاتی ہے اور بچیوں سے پوچھنے یا ان سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کیونکہ وہ والد یا والدہ یا دونوں ہی کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں اور واقعۃً وہ ان ہی کی ملکیت ہیں ۔
بنابرین وہ سونے کے زیورات، اگر گھر میں موجود دیگر زیورات کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جاتے اس سے زیادہ ہوجاتے ہیں تو ہر سال ان کی زکاۃ ضروری ہے۔ ہاں اگر وہ نصاب (ساڑھے سات تولہ) سے کم ہیں تو پھر زکاۃ سے مستثنیٰ ہوں گے۔
زمین اور پلاٹ پر زکاۃ کا حکم
آج کل زمینوں اور پلاٹوں کا کاروبار عام ہے۔ اس سلسلے میں دو سوال بالعموم سامنے آتے ہیں ۔
1. جو زمین یا پلاٹ اپنے ذاتی مکان یا کرائے پر دینے کے لیے مکان بنانے کی نیت سے خرید کر رکھا ہوا ہے، کیا اس میں ہر سال زکاۃ ضروری ہوگی؟
2. جوزمین یا پلاٹ بغرض تجارت خرید کر رکھا گیا ہو، اس کی زکاۃ کا کیا حکم ہے؟
جواب: جہاں تک اس پلاٹ کاتعلق ہے جو ذاتی مکان بنانے کے لیے رکھا ہوا ہے، وہ زکاۃ سے مستثنیٰ ہے اور جو کرائے پر دینے کی نیت سے مکان بنانے کی غرض سے رکھا ہوا ہے، اس پلاٹ پر بھی زکاۃ نہیں ہے۔
اور جو پلاٹ بیچنے کے لیے خرید کر رکھا ہوا ہے، اس پر زکاۃ ہوگی کیونکہ اس کی حیثیت سامانِ تجارت کی ہے اور جو چیز تجارت کے لیے ہو، اس پر زکاۃ عائد ہوگی۔ اس کی زکاۃ کا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ زمین کی قیمت بالعموم روز افرزوں ہوتی ہے
|