Maktaba Wahhabi

115 - 217
تانبا، پیتل اور سیسہ وغیرہ میں زکاۃ نہیں ، البتہ ان کی تجارت سے جو مال حاصل ہوگا، اس میں شرائط کے مطابق زکاۃ ہوگی۔ نقدی کا نصاب آج کل بالعموم لوگوں کے پاس سونا چاندی کی بجائے نقدی کی صورت میں رقم ہوتی ہے۔ اس صورت میں زکاۃ کس طریقے سے نکالی جائے؟ اس کے لیے علماء نے چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا ہے اور صدیوں سے علماء کے مابین نقدی کے لیے یہی نصاب تسلیم ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس اتنی نقد رقم ایک سال تک فاضل بچت کے طور پر محفوظ رہی ہے۔ جو 52/1/2تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہے، تو اس کو چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ نکالنی چاہیے۔ مثلاً آج کل (2010ء) کے حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کم و بیش تقریبًا 35 ہزار روپے بنتی ہے، اس لیے نقدی کا نصاب 35 ہزار روپے ہوگا۔ جس شخص کے پاس 35 ہزار روپے ایک سال فالتو پڑے رہے ہوں ، اسے چاہیے کہ وہ اس کی زکاۃ ڈھائی فیصد کے حساب سے 25 روپے فی ہزار (35ہزار کے 875 روپے) زکاۃ نکالے۔ اس سے زیادہ جتنی رقم ہو، وہ ڈھائی فیصد یا 25 روپے فی ہزار کے حساب سے نکالے۔ 35 ہزار سے کم رقم والے پر زکاۃ عائد نہ ہوگی۔ بعض علماء نے نقد رقم کی زکاۃ کے لیے سونے کے نصاب کو معیار قرار دیا ہے۔ اس حساب سے نقد رقم کا نصاب چاندی کے حساب سے 35 ہزار کی بجائے دو لاکھ سے زیادہ ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت نصاب ہوگا۔ اس سے کم رقم پر زکاۃ عائد نہیں ہوگی۔ لیکن راجح یہی ہے کہ چاندی کے نصاب کو نقد رقم کے لیے معیار مقرر کیا جائے
Flag Counter