جواب : اس مسئلے میں علماء میں اختلاف ہے لیکن میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ ایسے شخص کو اسلام سے الفت اور ایمان کی تقویت کے لیے زکاۃ دی جاسکتی ہے، خواہ اسے ذاتی حیثیت سے دی جارہی ہو اور وہ اپنی قوم کا سردار نہ بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مصارف زکاۃ کے ضمن میں ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ کا بھی ذکر فرمایا ہے اور پھر اگر ہم فقیر کو اس کی بدنی و جسمانی حاجت کے لیے زکاۃ دیتے ہیں ، تو ضعیف الایمان شخص کو ایمان کی تقویت کے لیے زکاۃ دینا جائز ہوگا کیونکہ انسان کے لیے جسمانی غذا کی نسبت ایمان کی تقویت کہیں زیادہ اہم ہے۔
کیا طالب علم کو زکاۃ دی جاسکتی ہے؟
سوال : طالب علم کو زکاۃ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب : وہ طالب علم جس نے اپنے آپ کو شرعی علم کے حصول کے لیے مصروف کر رکھا ہو، اسے زکاۃ دی جاسکتی ہے، خواہ وہ کمانے پر قادر بھی ہو کیونکہ شرعی علم کا حاصل کرنا جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے مصارف زکاۃ میں قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾
’’صدقات (یعنی زکاۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنانِ صدقات کا
|