Maktaba Wahhabi

105 - 217
’’اور متفرق (الگ الگ) جانوروں کو اکٹھا نہ کیا جائے اور اکٹھے جانوروں کو الگ الگ نہ کیا جائے، زکاۃ کے ڈر سے۔‘‘[1] اس کا مطلب امام مالک نے یہ بیان کیا ہے: ’’مثال کے طور پر تین آدمی ہیں ، تینوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں ہیں ، یہ تینوں اپنی اپنی بکریوں کو اکٹھا کر دیں (جبکہ حقیقت میں وہ الگ الگ ہیں ) تاکہ زکاۃ میں ایک ہی بکری دینی پڑے۔ الگ الگ ہونے کی صورت میں ہر ایک کو ایک ایک بکری دینی پڑتی (اس حیلے سے دو بکریوں کی بچت ہوگئی) اسی طرح دو خلیط ہوں ان کی دوسو بکریاں ہوں ، اس تعداد میں تین بکریاں زکاۃ میں دینی پڑتی ہیں ، چنانچہ وہ دونوں اپنی اکٹھی بکریوں کو الگ الگ کرلیں ، تاکہ ہر ایک کو صرف ایک ایک بکری دینی پڑے، اس صورت میں ایک بکری کی بچت ہوجائے گی۔‘‘[2] خلیط اور شریک کا مطلب اس میں خلیط کا لفظ آیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ دو آدمی یا دو سے زیادہ اپنی آسانی اور اخراجات کی بچت کے لیے اپنے جانوروں کے لیے ایک ہی باڑہ، ایک ہی چراگاہ، ایک ہی نر ایک ہی حوض اور ایک ہی چرواہا رکھیں اور اپنے اپنے جانوروں کی انہیں پہچان بھی ہو۔ اس کے ہم معنی ایک اور لفظ ’’شریک‘‘ ہے۔ جو ایک کاروبار میں شریک ساتھی کے لیے بولا جاتا ہے، دو ہوں توشَرِیکَیْنِ زیادہ ہوں توشُرَکَاء اسی طرح خلیط دو ہوں توخَلِیْطَیْن، زیادہ ہوں تو خُلَطَائ کہا جاتا ہے۔ شریکوں کا مال
Flag Counter