مشترکہ ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے متمیز (الگ الگ پہچان کا حامل) نہیں ہوتا، ان میں سرمائے کا اشتراک ہوتا ہے اور اسی اعتبار سے ان کے مابین نفع نقصان کا تعین ہوتا ہے۔ ان کا حکم تو واضح ہے کہ ان کے جانور فردِ واحد کے حکم میں ہوں گے، زکاۃ کے خوف سے ان کو الگ الگ یاالگ الگ کو اکٹھا کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن خَلِیْطَیْن یا خُلَطَاء کا معاملہ شَرِیْکَیْن یا شُرَکَاء سے مختلف ہے، ان کے مابین سرمائے کا اشتراک ہوتا ہے نہ نفع کا، صرف اپنی سہولت اور بچت کے لیے وہ مل کر، الگ الگ باڑوں کی بجائے، ایک ہی باڑہ بنا لیتے ہیں جہاں دونوں یا سب کے جانور رات گزار لیتے ہیں ۔ الگ الگ چرواہے کی بجائے، ایک ہی چرواہا رکھ لیتے ہیں جو ان سب کو ایک ہی جگہ چرانے کے لیے لے جاتا اور واپس لے آتا ہے، نسل کشی کے لیے سب، نر بھی ایک رکھ لیتے ہیں جس سے ان کا گزارہ ہوجاتا ہے، جبکہ عمروں یا قدوقامت یا رنگوں کے اعتبار سے سب جانوروں کی الگ الگ پہچان ہوتی ہے۔ اس میں ظاہر بات ہے کہ ان کے اخراجات میں کافی بچت ہوجاتی ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زکاۃ میں ان دو خلیطوں یا زیادہ خلیطوں کے مال کو شریکوں کی طرح، ایک ہی مال متصور کرکے زکاۃوصول کی جائے گی۔ اس میں خلیطوں کو فائدہ ہو یا نقصان، وہ اس مخلوط مال کو محض زکاۃ دینے کے وقت الگ الگ کریں نہ الگ الگ مال کو اکٹھا کریں ۔ بلکہ سب کے مجموعی مال میں جتنی زکاۃ عائد ہوتی ہے، وہ ادا کریں ۔ اور اس کے بعد پھر اس زکاۃ کو آپس میں اپنے مویشیوں کے حساب سے تقسیم کر لیں ۔ جیسے دو خلیطوں کے مویشی مخلوط ہیں ، دونوں کی20، 20 بکریاں ہیں ۔ علیحدہ علیحدہ ہونے کی صورت میں تو ان میں کسی پر زکاۃ عائد
|