نہیں ہوگی، لیکن دونوں کی بکریاں مل کر چونکہ نصاب کو پہنچ جاتی ہیں ، اس لیے ایک بکری زکاۃ میں دینی پڑے گی۔ اب جس کے مال میں سے ایک بکری بطور زکاۃ کے جائے گی، وہ اپنے خلیط سے بکری کی آدھی قیمت وصول کر لے گا۔ اسی طرح خلطاء کو بعض دفعہ فائدہ ہوسکتا ہے، مثلاً: تین خلیط ہوں ، ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہوں ، یوں 120 بکریاں مخلوط ہوں ، تو سال گزرنے کے بعد ان میں صرف ایک بکری بطور زکاۃ کے جائے گی۔ دو بکریوں کی بچت ہوجائے گی، جس کے مال میں سے بکری جائے گی، وہ اپنے دو خلیطوں سے اپنی بکری کی دو تہائی 2/3 قیمت وصول کرلے گا۔ دوخلیط ہوں ، ایک کی 40 اور دوسرے کی 20 بکریاں ہوں ، 60 بکریوں میں ایک بکری بطور زکاۃ کے جائے گی، اب اگر وہ بکری20 بکریوں کے مالک کی ہوگی تو وہ اپنے ساتھی سے بکری کی دو تہائی 2/3 اور اگر وہ چالیس والے کی ہوگی، تو وہ اپنے ساتھی سے بکری کی ایک تہائی 1/3 قیمت وصول کرے گا۔ اس صورت میں ایک خلیط کو کچھ فائدہ اور دوسرے کو کچھ نقصان ہوگا۔ یہ اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے۔
((وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیطَیْنِ فَإِنَّہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بَیْنَہُمَا بَالسَّوِیَّۃِ))
’’اور جو دو خلیطوں کے مال سے ہو، تو وہ دونوں آپس میں برابری کے ساتھ ایک دوسرے سے رجوع کریں گے۔‘‘[1]
یعنی زکاۃ کی ادائیگی کے بعد، فائدے اور نقصان سے قطع نظر، سارے خلطاء اپنی اپنی بکریوں کی تعداد کے حساب سے اس کی قیمت آپس میں تقسیم کرلیں گے۔
مذکورہ وضاحت کی روشنی میں جمع و تفریق کی یہ ممانعت ارباب اموال کے لیے ہے
|