ہیں اور ہر باندی کے پاس زیورات کا ایک بکس ہے جب تم یہ تمام دولت صرف کرلوگے اور تمہارے غلاموں اور باندیوں کے پاس سوت کے کمر بند اور معمولی لباس کے سوا کچھ نہ بچے گا تب میں تمہیں فتویٰ دوں گا کہ رعیت کے مال پر ہاتھ ڈالو۔‘‘
یہ سن کر بادشاہ ظاہر غصہ سے بے قابو ہوگیا اور حکم دیا کہ تم میرے شہر دمشق سے فوراً نکل جاؤ۔ امام نووی نے فرمایا: بہتر ہے۔ یہ کہہ کر وہ شام کے ایک گاؤں ’’نوٰی‘‘ میں جاکر مقیم ہوگئے شیخ کے جانے کے بعد دوسرے فقہاء نے بادشاہ سے عرض کیا کہ شیخ محی الدین ہمارے کبار علماء و صلحاء میں شمار ہوتے ہیں اور عوام پر ان کا بہت زیادہ اثر ہے۔ ان کا دمشق سے اس طرح نکل جانا مناسب نہیں ہے یہ سن کر بادشاہ نے امام نووی کی واپسی کا حکم صادر کیا لیکن جب بادشاہ کا فرمان شیخ موصوف کو ملاتو انہوں نے واپسی سے انکار کردیا اور فرمایا: جب تک ظاہر دمشق میں موجود ہے میں وہاں نہیں جاسکتا۔ اس واقعہ کے ٹھیک ایک ماہ بعد ظاہر کا انتقال ہوگیا۔[1]
27. ٹیکسوں کی ظالمانہ شرح کی ایک مثال
ہمارے ملک کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ مذکورہ دونوں شرطوں کے بغیر ہمارے ملک میں ٹیکس روز افزوں ہیں ۔ یہ صورت حال ملک اور قوم دونوں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ ٹیکسوں کی شرح کس حد تک ظالمانہ ہے۔ اس کا اندازہ ایک کالم نگار کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس کی وضاحت اس نے اپنے ایک کالم میں کی ہے، کالم نگار لکھتا ہے:
|