Maktaba Wahhabi

214 - 217
حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلبی منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے) یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کردیے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘[1] اگر کوئی طالب علم دنیوی علم کے حصول میں مشغول ہو تو اسے زکاۃ نہ دی جائے، اس سے ہم کہیں گے کہ اب تم دنیا کے لیے کام کررہے ہو اور اس سے تم دنیا کمانے کے لیے ملازمت بھی حاصل کرلوگے، لہٰذا تمہیں زکاۃ نہیں دیں گے۔ شادی کے لیے زکاۃ سے مدد کرنا؟ اگر ہم کوئی ایسا شخص دیکھیں جو کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات کے لیے تو کمائی کرسکتا ہے اور اسے شادی کی ضرورت ہو اور شادی کے اخراجات کے لیے اس کے پاس رقم نہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا شادی کے لیے اسے زکاۃ دینا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں اسے شادی کے لیے زکاۃ دینا جائز ہے۔ زکاۃ سے مہر کے لیے ساری رقم اسے دی جاسکتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ فقیر کو شادی کے لیے رقم دینا اور بہت زیادہ رقم دینا کس طرح جائز ہے؟ ہم کہیں گے اس لیے کہ بسااوقات انسان کو شادی کی ضرورت بھی کھانے پینے کی ضرورت کی طرح بہت شدید ہوتی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ جس پر کسی شخص کا نفقہ لازم ہو تو اسے اس کی شادی کے اخراجات بھی برداشت کرنے چاہییں بشرطیکہ مالی طور پر وہ استطاعت رکھتا ہو، مثلاً باپ کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی
Flag Counter