﴿ فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾
’’پس رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو دو، یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جواللہ کی رضامندی کے طالب ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘[1]
قرآن کریم کے یہ الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ایک صاحب حیثیت آدمی اپنے کسی غریب رشتے دار کی امداد کرکے یہ نہ سمجھے کہ وہ اس پر احسان کررہا ہے، بلکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اسے اس حق کی ادائیگی کی توفیق سے نوازا جو اللہ نے اس کے مال میں مستحقین کا رکھا ہے۔ وہ مستحقین کے حق کی ادائیگی کرکے ایک فرض پورا کررہاہے، کسی پر احسان نہیں کررہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان اہل ایمان و تقویٰ کی صفات میں جو جنت میں جائیں گے، ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے:
﴿ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤﴾ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ﴾
’’ان کے مالوں میں ایک مقررہ حق ہے، سائل کا اور محروم کا۔‘‘[2]
سائل کو ہر کوئی کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے۔ لیکن محروم سے مراد کیا ہے؟ اس میں ایک تو وہ شخص داخل ہے جو رزق ہی سے محروم ہے، یعنی سخت غریب و نادار ہے۔ دوسرا وہ جو کسی آفت سماوی و ارضی کی زد میں آکر اپنی پونجی سے محروم ہوگیا۔ تیسرا، جو اپنے کمانے والے سے محروم ہوکر اپنا ذریعۂ آمدنی کھو بیٹھا، اس میں یتیم بچے اور بیوائیں آجاتی ہیں ۔ چوتھا، وہ شخص جو ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنی صفت تعفف کی وجہ
|