Maktaba Wahhabi

192 - 217
ہے، اس کے برعکس علماء کی اکثریت زیور میں زکاۃ کی قائل ہے اور یہی رائے راجح اور درست ہے کیونکہ ایک تو قرآن و احادیث میں زکاۃ نہ دینے پر جو سخت وعیدیں آئی ہیں ، ان کے عموم میں زیور بھی شامل ہے (یہ احادیث پہلے بیان ہوچکی ہیں ) دوسرے، زیور میں زکاۃ نہ دینے پر خصوصی طورپر بھی وعیدیں وارد ہیں ۔ جیسے مثلًا: عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ (عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ) والی سند سے یہ واقعہ مروی ہے کہ یمن کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جس کے ہاتھ میں سونے کے دو کڑے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ((أَتُؤَدِّینَ زکَاۃَ ہٰذَ؟)) ’’کیاتو اس کی زکاۃ دیتی ہے؟‘‘ اس نے کہا: لَا، نہیں ۔ آپ نے فرمایا: (( اَیَسُرُّکِ أَنْ یُسَوِّرَکِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہِمَا یَوْمَ القِیٰمَۃِ سِوَارَیْنِ مِنْ نَارٍ)) ’’کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان دو کڑوں کے بدلے قیامت کے دن آگ کے دو کڑے پہنائے؟۔‘‘ اس عورت نے یہ سُنتے ہی دونوں کڑے اتار کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کردیے اور کہا: (( ہُمَا لِلّٰہِ وَرَسُولِہِ)) ’’یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ، یعنی فی سبیل اللہ صدقہ ہیں ۔‘‘[1] یہ حدیث محدثین کے نزدیک قابل حجت شمار ہوتی ہے، اس لیے اس حدیث سے
Flag Counter