Maktaba Wahhabi

189 - 217
ام سلمہ (ام المومنین) رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا: ((یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلِيْ أَجْرٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَی بَنِي أَبِی سَلَمَۃَ، إِنَّمَا ہُمْ بَنِيَّ)) ’’اے اللہ کے رسول! کیا میرے لیے اس بات میں اجر ہے کہ میں (اپنے سابقہ شوہر) ابوسلمہ کے بیٹوں پر خرچ کروں ، وہ میرے بھی بیٹے ہیں ؟۔‘‘[1] آپ نے فرمایا: ((اَنْفِقِيْ عَلَیْہِمْ، فَلَکِ أَجْرُمَا أَنْفَقْتِ عَلَیْہِمْ)) ’’ان پر خرچ کر، ان پر تو جو خرچ کرے گی، اس پر تو اجر کی مستحق ہوگی۔‘‘ مذکورہ تفصیل سے واضح ہوا کہ تین قسم کے بچے ہیں جن پر زکاۃ کی رقم خرچ ہو سکتی ہے۔ 1. قریبی رشتے داروں کے یتیم بچے، جن کی کفالت کا کوئی انتظام نہ ہو تو ان کی پرورش کرنے والے زکاۃ کی رقم ان پر خرچ کرسکتے ہیں ۔ 2. عورت کے اپنے بچے جن کا باپ فوت ہوگیا ہو تو وہ عورت اپنے ان بچوں پر بھی زکاۃ کی رقم خرچ کرسکتی ہے۔ 3. باپ کی موجودگی میں ایک عورت اپنے بچوں پر زکاۃ کی رقم خرچ کرسکتی ہے بشرطیکہ باپ ان کے اخراجات کا متحمل نہ ہو اور مسکین فقیر کی تعریف اس پر صادق آتی ہو۔ اس کی دلیل ایک تو مذکورہ حدیث کے الفاظ زَوْجُکِ وَوَلَدُکِ أَحَقُّ… ہیں ۔ دوسری دلیل رضاعت کے باب میں قرآن کریم کی یہ صراحت ہے
Flag Counter