’’اے اہل ایمان! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔‘‘[1]
جبکہ پاکیزہ (طیب) کمائی سے مراد حلال ذرائع سے حاصل شدہ کمائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
((إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا))
’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے۔‘‘[2]
دوسری حدیث میں فرمایا:
((لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ صَلَاۃً بِغَیْرِ طُہُورٍ وَلَا صَدَقَۃً مِنْ غُلُولٍ))
’’اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں کرتااور نہ غلول مال ہی میں سے صدقہ قبول فرماتا ہے۔‘‘[3]
… اور غلول کا مطلب ہے چوری اور خیانت کے ذریعے سے حاصل کردہ مال۔ ایسے مال سے زکاۃ وصدقات کی عدم قبولیت کی وجہ بالکل واضح ہے کہ یہ مال سرے سے اس کا اپنا مال ہی نہیں ہے کہ جس میں اس کو تصرف کا حق حاصل ہو۔ جبکہ صدقہ و خیرات تصرف ہی کی ایک قسم ہے۔ علاوہ ازیں اگر ایسے مال سے بھی صدقہ و خیرات قبول کر لیے جائیں تو پھر تو چوری، خیانت اور ناجائز ذرائع آمدنی کے ذریعے سے کسب دولت کی ممانعت، بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے اور حلال و حرام دونوں کو یکساں مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت میں دونوں کا مقام ایک نہیں ہے، بلکہ ایک
|