مسئلے‘‘ کو پیدا ہی نہیں ہونے دیا، ازخود اس کے حل کی راہیں نکل آئیں ۔ بنا بریں آج بھی ہمارے معاشرے کا سب سے اہم مسئلہ روزگار کا مسئلہ نہیں ، جس طرح کہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ اور دیگر اشتراکی اور آج کے اکثر سیاسی لیڈروں کا خیال ہے۔ بلکہ اصل ضرورت، ایمان و اخلاق کے درست کرنے کی ہے اور اسی پر معاش کی درستی کا انحصار ہے۔ ایمان و اخلاق کی تصحیح کے بغیر مجرد معاشی اصلاح کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
آیت ﴿ قُلِ الْعَفْوَ﴾ سے غلط استدلال
مسئلہ شکم ہی کو سب کچھ سمجھنے والے قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں :
﴿ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾
’’لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ آپ انہیں کہہ دیں جو زائد ہے۔‘‘[1]
﴿ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ (النجم 39:53) کی طرح اس آیت سے بھی چونکہ عام طور پر غلط استدلال کیا جاتا ہے۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ نے بھی اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں اسے پیش کیا ہے، اس لیے اس کا وہ مفہوم سمجھ لینا چاہیے جو مفسرین امت نے سمجھا اور بیان کیا ہے۔
اس آیت کی تفسیر و تشریح میں مفسرین کے درمیان گو قدرے اختلاف ہے تاہم مآل سب کا ایک ہے۔ دوسرے، کسی مفسر نے اس آیت سے وہ مطلب اخذ نہیں کیا جو آج کل کے اشتراکی ذہن کے لوگ عام طور پر خام مطالعہ یا مخصوص مقاصد و نظریات کے
|