کاوشوں کی ساری تان پیٹ پر آکر ٹوٹتی ہے۔ جس طرح بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگایا تھا، اسی طرح ’’طلوع اسلام‘‘ کے نزدیک بھی سب سے زیادہ اہم مسئلہ معاش ہی کا ہے۔ زکاۃ کے مفہوم میں تبدیلی کے پیچھے کار فرما عامل بھی دراصل اس کا یہی ذہن ہے۔
روزگار (معاش) کا مسئلہ بلاشبہ اپنی جگہ اہم ہے، اسلام اس سے ہرگز صرفِ نظر نہیں کرتا تاہم اسلام میں اس کی وہ حیثیت بھی نہیں جو حیثیت آج کل اسے معلوم وجوہ کی بنا پر دے دی گئی ہے۔ مادی و اشتراکی ذہن نے پیٹ کے مسئلے ہی کو سب کچھ بنا دیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ پورے نظامِ زندگی کا نفاذ کرتا ہے جبکہ اسلام کے نزدیک یہ مسائلِ حیات کا ایک جزو ہے، کل مسئلۂ حیات نہیں ۔ وہ اسے مجرد معاشی نقطۂ نظر سے حل نہیں کرتا بلکہ وہ ایمان و اخلاق کے حوالے سے اس کی درستی کا قائل ہے۔ اس لیے اسلام کی نظر میں سرفہرست مسئلہ معاش نہیں ، ایمان و اخلاق کی پختگی و درستی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ افرادِ معاشرہ اگر ایمان سے بہرہ ور اور اخلاقی اوصاف سے متصف ہوں گے تو وہاں مسئلۂ معاش ازخود آسان اور فطری طریقے سے حل ہو جائے گا۔ اگر افرادِ معاشرہ ایمان و اخلاق سے بے بہرہ ہوں گے تو وہاں کبھی بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ کے نعرے سے نہیں کیا، حالانکہ امیرو غریب میں تفاوت اور معاشی ناہمواری اس دَور میں بھی بدترین شکل میں موجود تھی، بلکہ آپ نے اپنی دعوت کا آغاز، شرک کی واشگاف تردید اور توحید کی تبلیغ سے کیا۔ عقیدے کی پختگی اور درستی کے بعد آپ نے تزکیۂ نفس اور تطہیر اخلاق پر زور دیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ عقیدہ و اخلاق کی درستی نے ’’پیٹ کے
|