Maktaba Wahhabi

175 - 217
تحت لیتے ہیں ۔ اس آیت کے متعلق بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ابتدائے اسلام میں جبکہ نصابِ زکاۃ کیتعیین نہیں ہوئی تھی، اس وقت یہ حکم دیا گیا تھا کہ زائد مال تقسیم کردیا جائے جو بعد میں نصابِ زکاۃ کی تعیین کے ساتھ منسوخ ہو گیا۔ بعض کا خیال ہے کہ آیت مجمل ہے جس کی تفسیر و توضیح نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصابِ زکاۃ بیان کر کے فرما دی۔ اس طرح یہ آیت نہ منسوخ ہے اور نہ اس کا تعلق خارج از زکاۃ سے ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک سرے سے اس کا تعلق زکاۃ سے ہے ہی نہیں ، صدقاتِ فاضلہ سے اس کا تعلق ہے اور مطلب اس کا یہ ہے کہ زائد مال میں سے جتنا بآسانی خرچ کر سکتا ہو، اسے انسانیت کی فلاح و بہبود پر صرف کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ گویا یہ ایک اخلاقی ہدایت ہے، قانونی حکم نہیں ۔ اس اخلاقی ہدایت پر عمل کرنا یقینا بہت اجروثواب کا کام ہے لیکن قانونی حکم زکاۃ کی ادائیگی ہے جس کا انکار یا اس سے گریز نہایت خطرناک ہے۔ ان میں سے جو مطلب بھی لیا جائے یہ بہر حال واضح ہے کہ اس سے وہ مفہوم کسی طرح بھی اخذ نہیں کیا جاسکتا جو آج کل لوگ اس سے کشید کر کے ذاتی ملکیت ہی کی نفی کے لیے اسے استعمال کر رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں پوری امت کا تعامل بھی اس آیت سے وہ مفہوم اخذ کرنے میں مانع ہے جو ’’طلوعِ اسلام‘‘ سمیت اشتراکی ذہن کے لوگ کر رہے ہیں یا جیسے بعض حضرات نے شاعرانہ ترنگ میں کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’’ضرورت‘‘ کی تعیین بھی کیوں کر ہو گی؟ ہر شخص کی ’’ضرورت‘‘ دوسرے شخص کی
Flag Counter