Maktaba Wahhabi

566 - 579
حرام ذبیحے ہیں اور ان کا قائل وفاعل مشرک ہے۔ 75۔کفار کی عیدیں جیسے نوروز، دیوالی اور دسہرہ میں کافروں کے ساتھ کھیل تماشے میںموافقت کرنا کفر ہے۔ 76۔ایمانِ یاس [نزع کے وقت ایمان لانا] مقبول نہیں ہوتا ہے: ﴿ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُھُمْ اِِیْمَانُھُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا﴾[المؤمن: ۸۵] [پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا] فرمانِ الٰہی میں ’’باس‘‘ سے مراد ’’غرغرہ‘‘ ہے۔ اس سے پہلے پہلے توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ ’’شرح مقاصد‘‘ میں کہا ہے کہ جو شخص حدوثِ عالم یا حشرِ اجساد یا جزئیات کے علمِ الٰہی یا ضروریاتِ دین سے کسی اور چیز کا انکار کرے گا تو وہ بالاتفاق کافر ہے۔ اگر ان مسائلِ اعتقاد میں، جن میں روافض، خوارج اور معتزلہ وغیرہ بدعی فرقے خلاف رکھتے ہیں، اہلِ سنت کے برخلاف اعتقاد رکھے گا تو اسے کافر کہنے میں علما کا اختلاف ہے۔ منتقیٰ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ہم کسی اہلِ قبلہ کو کافر نہیں کہتے ہیں۔ ابو اسحاق اسفرائنی نے کہا ہے کہ جو کوئی اہلِ سنت کو کافر کہتا ہے، ہم اسے کافر جانتے ہیں اور جو اسے کافر نہیں کہتا، اسے ہم بھی کافر نہیں کہتے۔ انتھیٰ۔ میں کہتا ہوں: بہتر (۷۲) گمراہ فرقوں کے احوال و عقائد ملاحظہ کرنے سے کتاب وسنت پر پیش کرنے کے وقت، بلکہ خود اہلِ سنت کے عقائد سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کون سا فرقہ کفر کی حد تک پہنچ گیا ہے اور کون صرف مبتدع اور گمراہ ہے۔ اسلام کے بہتر (۷۲) فرقوں کا ناری اور جہنمی ہونا تو خود خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے،[1] اگرچہ وہ سب اہلِ قبلہ ہیں، لیکن بحث خلود اور عدمِ خلود نار میں ہے نہ کہ دخولِ نار میں، کیوں کہ وہ تو نصِ سنت کے ساتھ متعین ہے۔ ورود علی النار میں بھی اختلاف نہیں ہے کہ وہ نصِ قرآن کی روسے ساری مخلوق کے لیے ثابت ہے، خواہ فرقہ ناجیہ ہو یا فرقہ ہالکہ، واللّٰہ أعلم۔ 77۔جو ملعون جناب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں دشنام دے یا اہانت کرے یا امورِ دین سے کسی امر
Flag Counter