Maktaba Wahhabi

552 - 579
دلائل کی وضاحت کے لیے تھا۔ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ بھی باہم مختلف ہو جاتے تھے۔ وہی اس امت کے لیے نمونہ ہیں اور ان کا اجماع سب کے نزدیک حجت ہے۔ اہلِ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ظاہراً اور باطناً ہر قول، فعل، عمل اور حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کا اتباع کرتے ہیں۔ ظاہر سنت اور واضح کتاب پر چلتے ہیں۔ وہ سابقین اولین مہاجرین انصار کی راہ پر چلنے والے ہیں۔ وہ رسولِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا اتباع کرتے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (( عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ، عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ، وَ إِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) [میری سنت اور ہدایت یافتہ اور نیک خلیفوں کی سنت کو لازم پکڑو، اسے دانتوں کے ساتھ خوب مضبوطی سے تھام لو اور بدعات سے بچو، بلاشبہہ ہر بدعت گمراہی ہے] اسی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ اختلاف کی بھی خبر دی ہے۔ فرمایا: (( وَ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِيْ فَسَیَری اخْتِلَافاً کَثِیْراً )) [1] [تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت سا اختلاف دیکھے گا] یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہمیں پیش آیا۔ اس تجربے کے بعد ہم پر وصیت نبوی پر عمل کرنا واجب ہوا۔ اہلِ حدیث یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کسی کا کلام اللہ عزوجل کے کلام سے زیادہ راست اور سچا نہیں ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًا﴾[النسائ: ۱۲۲] [اور اللہ سے زیادہ بات میں کون سچا ہے] پھر اب اس کلام کے بعد وہ کس کی بات پر ایمان لائے گا؟۔ ﴿فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ﴾[الأعراف: ۱۸۵] [پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟] سب سے بہتر طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ محدثاتِ دین سب سے برے امور
Flag Counter